استخارہ خود کیجئے اور مسنون طریقے سے کیجئے۔

اس مضمون میں استخارہ سے متعلق تمام تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ استخارہ کے مسائل بہت آسان ہیں تھوڑی سی محنت کریں اور زندگی بھرکیلئے استخارہ کے معاملےمیں خود کفیل ہوجائیں جب ہر خیر اللہ تعالیٰ ہی سے ملنی ہے اور اللہ تعالیٰ کو براہِ راست مانگنا پسند بھی ہے تو پھر دوسروں کے در پر کیوں ٹھوکریں کھائیں؟اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خطرہ کیوں مولیں؟ نبی کریم ﷺ کے طریقے اور سکھائی گئی دعاؤں میں امتیوں کے اقوال، انداز اور اضافے کی ملاوٹ کرکے ساری محنت کو مشکوک اور بے مقصدبنانے کا کیا فائدہ ! اس اضافے اور ملاوٹ ہی کو بدعت کہتے ہیں۔

حسنِ ظن رکھتے ہوئے ہم ایسے تمام لوگوں سے درخواست کرتے ہیں جوشاید لاعلمی میں اور بھلائی کے تناظر میں مذکورہ غیر شرعی طریقوں سے استخارہ کرتے یا کرواتے ہیں کہ وہ تمام دینی معاملات کے لئے اپنے آپ کو 14سو سال پرانے مسنون طریقے پرہی رکھیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل استخارہ کے نام پرجو خلط ملط ہورہا ہےوہ سب استخارہ سے متعلق بدعات ہیں۔ اپنے خاندان کےبڑے بوڑھوں اور علمائےکرام سے دریافت کیجئے ۔ یہ ماننا پڑےگا کہ آج سے کچھ عرصے پہلے تک ان طریقوں کا وجود بھی نہ تھا اور اگلے چند سالوں بعد نہ معلوم یہ سلسلہ کیا رُخ اختیار کرےگا اور یہی بدعت کاوہ مذمومہ پہلوہے جس کی وجہ سے بدعت کو گمراہی کہا گیا ہے کہ جس طرح کینسر کا اثر خرابی کے حوالے سے بڑھتا ہی ہے اسی طرح بدعت کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ پھیلتی اور بڑھتی ہی رہتی ہے اور یہ سلسلہ رکتا ہی نہیں ہےیہاں تک کہ مسلمان حق سے دور ہوکر دنیاوی و اخروی لحاظ سے انجام بد کا شکار ہوجاتا ہے۔ایک عقلمند انسان کو دینی معاملات میں OLDEST IS THE PURE GOLD کی سوچ رکھنی چاہئے اور تمام معاملات کو براہِ راست نبی کریم ﷺ کے اسوہ اور تعلیمات کے مطابق انجام دینا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ نبی کریم ﷺ کے طریقے سے ہٹ کریا بڑھاچڑھا کر کوئی بھی عمل ایک قسم کی سرکشی اور بغاوت ہے جو فائدے کے بجائے گناہ اور نقصان کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس لئے محفوظ سوچ اپنائیں اور اپنی تمام عبادات اور معاملات کواسوہ ٔرسول ﷺ تک محدود رکھیں۔

حرفِ اول

بلاشبہ استخارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر احسانِ عظیم ہے جس کے ذریعے وہ زندگی کے معاملات میں خیر اور ذہنی کشمکش سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ فی الوقت اکثر مسلمان استخارہ کو محض ایک رسمی حیثیت دیتے ہیں اور استخارہ کو اس کی روح کے مطابق نہیں لیتے، اس حوالے سے فی الوقت مسلمانوں کو2   واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ وہ جوبالکل لا علم ہیں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہیں اور غیر دانستہ طور پربعض صورتوں میں کبائر اور شرک جیسے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

2 ۔ وہ جو اپنے تئیں دیندار ہیں اور مسائل دینیہ سے واقفیت بھی رکھتے ہیں مگر اپنے معاملات میں من کی چاہ کے تحت استخارہ کی شرائط (Pre-Requisites)کو نہ صرف نظر اندازکرتے ہیں بلکہ دیگر (short cut) طریقے اختیار کرکے اپنی چاہ کو جوازِ قبولیت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

استخارہ عملاً تقدیر کے برے اثرات سے بچنے یا محدود کرنے کا وہ ممکنہ نسخہ ٔخیر ہے جو اپنے ضوابط کے ساتھ مشروط ہےجیسے طبّی نسخہ کی افادیت علاج سے متعلقہ ہدایات اور احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل سے مشروط ہے۔

استخارہ کا مقصد:

اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے یہ زندگی کے ہر شعبے میں نوعِ انسانی کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میں بار بار ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جس پر اس کی معیشت، معاشرت اور ذہنی سکون وغیرہ کا دار و مدارہے۔ استخارہ ایک انتہائی مؤثر اور شرعی طریقہ برائے مشورہ ہے جس کے ذریعے ایک مسلمان دیگر تمام رسومِ جاہلیت، غیر شرعی طریقوں، اٹکل پچو اور جادوئی انداز سے بالاتر ہوکر اس کائنات کے خالق، مالک، حافظ، علیم، حکیم ، خبیر اور نظام چلانے والی ذات یعنی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے اپنے کسی بھی ارادے پر عمل کرنے سے پہلے خیر، آسانی رہنمائی، مدد اور فضل کا سوال کرتا ہے۔ یعنی استخارہ ظاہری طور پربھی ایک فائدہ مند اور پرکشش معاملے میں نتیجہ اور انجام کے لحاظ سے خیر کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید اور مرضی حاصل کرنے کا شرعی طریقہ ہے۔

لغوی معنی:

کسی معاملے میں خیر کے پہلو تلاش کرناجیسے عربی میں کہاجاتا ہے: ( اِسْتَخِرِ اللهَ يَـخِرْلَكَ)

کہ اللہ سے خیر مانگو، وہ تمہیں خیرعطا کرےگا۔

اصطلاحی معنی:

کسی بھی معاملے میں رہنمائی طلب کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں عمل کرنے یا نہ کرنے میں کونسا فیصلہ میرے حق میں بہتر ہے؟

امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں فرمایا:اللہ تعالیٰ سے استخارہ اور اہل علم و صلحاء سے مشورہ طلب کرنااس لئے ہے کہ انسان کا اپنا علم ناقص ہوتا ہے اور سوچ کامل نہیںہوتی کیونکہ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔ بسا اوقات پیچیدہ مسائل پیش آجاتے ہیںاور وہ تردد کا شکار بھی ہوجاتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟

استخارہ میں خیر سے کیا مراد ہے؟:

استخارہ کے تناظر میں اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال کرنے کا جامع مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی ناکامیوں سے بچاتے ہوئے دین کی سلامتی کے ساتھ دنیاوی معاملات میں عافیت و سہولت عطافرمائے۔

استخارہ کی اہمیت:

استخارہ ہر دو صورتوں میں کرنا چاہیے یعنی اگر معاملہ ظاہری طور پر قابلِ اطمینان ہو یا پیچیدہ دونوں صورتوں میں حساس ، دور رَس اثرات اور مستقبل سے متعلق معاملات پر استخارہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

مسلمان کے لئے ہر اہم معاملے میں استخارہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دعائے استخارہ قرآن کریم کی آیات کی طرح یاد کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کریم پڑھایا کرتے تھے اسی طرح ہر کام میں استخارہ کرنے کی بھی تعلیم دیتے تھے۔(صحیح بخاری،6382)

آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم معاملے میں فکرمند ہوتو دو رکعت نفل پڑھے اور پھر دعائے استخارہ پڑھے۔(صحیح بخاری،6382)

استخارہ کن معاملات کے لئے کرنا چاہیے اور کون سے معاملات استخارہ سے بالاتر ہیں؟

1۔ تمام فرائض ، لازمی ، تاکیدی معاملات اور احکامات کے لئے استخارہ کرنا منع ہے۔

2۔ تمام ممنوعہ، حرام اور شبہہ میں ڈالنے والے معاملات پر بھی استخارہ نہیں کرنا چاہئے۔

3 ۔استخارہ ان معاملات اور اشیاء کے لئے بھی نہیں کرنا چاہئے جوواضح تکاثر اور از حد پر تعیش سامانِ دنیا کے زمرے میں آتی ہوں یعنی اسلام کی عمومی تعلیماتِ سادگی کے واضح خلاف ہوں۔ تکاثر کے تحت بنیادی معیارات اور رہنمائی کو نظر انداز کرکے خواہشات اوربلاجواز ضرورتوں کو استخارہ کے تحت جوازِقبولیت (endorse) دینے کی سوچ دین کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے اور محض ڈھکوسلہ بازی ہے۔پرتعیش معاملات کے لئے استخارہ کے ذریعے خیر طلب کرنے والوں کو سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت ذہن میں رکھنی چاہئے جس میں یہ ارشاد ہے کہ سادگی (پرہیزگاری)ان تمام چیزوں کی حد سے زیادہ رغبت سے بہتر ہے۔

ترجمہ:لوگوں کے لیے خواہشاتِ نفس کی شدید محبت (شہوات) جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ آپ (ﷺ) لوگوں سے کہئے: کیا میں تمہیں ایسی چیزوں کی خبر دوں جو اس دنیاوی سامان سے بہتر ہیں؟ جو لوگ تقویٰ (سادگی/ پرہیز) اختیار کریں ۔ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور وہاں انہیں پاک صاف بیویاں میسر ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی (ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی) اور اللہ تعالیٰ ہروقت اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔(اٰل عمران 1415)

مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں وہ نکتۂ حکمت بیان کیا گیا ہے جو دو ٹوک حرام و حلال سے ہٹ کر اختیاری معاملات کے لئے اصلاحِ نفس اور فکر ِ آخر ت کے لحاظ سے انتہائی موثر ہے۔ ویسے بھی سیرت نبویﷺ کا اہم سبق فکر ِآخرت کے تحت دنیا کی زندگی کو سادگی سے گزارنے کی تلقین ہے۔

چنانچہ استخارہ ہمیشہ اُن جائزاختیاری (Optional) کاموں کے لئے کرنا چاہیے جن کے ضمنی معاملات کے انتخاب کے لئے انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کرے یا نہ کرے اور اگر کرے تو وہ کوئی مخصوص کام کب، کیسے اور کس کے ساتھ کرے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اولاً پیشِ نظر معاملہ شریعت کے معیارِ حلال و حرام اور بنیادی رہنمائی سے مطابقت رکھنے والا ہو ۔ مثلاًرشتے کے حوالے سے بنیادی رہنمائی موجود ہے۔اسی طرح کے بنیادی اور شرعی معیارسواری، کاروبار، یا گھر کی خریداری اور سفر وغیرہ کے لئے بھی موجود ہیں۔

شادی کے معاملات اور استخارہ

بلاشبہ انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم مرحلہ ہے اور شریکِ حیات کا انتخاب بہت حساس معاملہ ہے۔ یہ المیہ ہے کہ شادیوں کے فیصلے میں زبردست غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔اس کی اصل وجہ ابتدا ہی سے اصولوں کی روگردانی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ مثلاًرشتے کے حوالے سے یہ بنیادی رہنمائی موجود ہے کہ خاتون کے لئے اس کی دینداری کو چیک کیا جائے نہ کہ محض اس کے حسن، دولت اور حسب و نسب کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔(صحیح مسلم) لڑکے کے لئے پہلے اس کا دین، اخلاق اور ضروری صلاحیتیں دیکھی جائیں( ترمذی1084) نہ کہ مال و دولت جوانی، خوبصورتی اور صرف دنیاوی تعلیم وغیرہ۔ لیکن عملاً ہوتا کیا ہے؟ اولاً تولڑکے، لڑکی کے انتخاب کے مرحلے پر خاندان کے غیر متعلقہ افراد کی خوشنودی کو مقدم رکھا جاتا ہے جن میں سے اکثر کی وجۂ انتخاب یا انکارذاتی پسند نا پسند، دنیاوی معیارات ، ذاتی مفادات اور تحفظات ہوتے ہیں۔بعض اوقات یہ فیصلہ ساز افراد لڑکے یا لڑکی کی جائز وجہ پسند یا ناپسند کو بھی ضروری اہمیت نہیں دیتے۔ محبت کی شادی تو الگ مسئلہ ہے بعض اوقات لڑکے یا لڑکی کی ذاتی پسند یا ناپسندفیصلہ سازی کا معیار بن جاتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں دین کی دی ہوئی رہنمائی اور استخارہ محض ایک رسمی مرحلہ رہ جاتا ہے ، چنانچہ ایسی تمام شادیوں کا انجام یا تومجبوری کی شادی/ رشتہ داری (Marriage of Compromise) کی صورت میں زندگی بھر کی تلخیاں یا پھر انتہائی صورتحال یعنی طلاق کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ غلط ہے، ہونا یہ چاہئے کہ رشتہ/شادی سے متعلق بنیادی اسلامی رہنمائی پر عمل ہو، اس کے بعد لڑکے یا لڑکی کی ذاتی پسند یا ناپسند کو ثانوی اہمیت دیتے ہوئے ضروری حد تک پورا کیا جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ استخارہ اس کی روح کے مطابق کیاجائے۔

اکثر صورتوں میں والدین تربیت اور صلاحیت کے اعتبار سے اپنی 2025 سالہ نااہل اور غیرذمہ دار اولاد (Product) کو جب عملی میدان میں اتارتے ہیں یا انتخاب کرتے ہیںیا بعض اوقات جاننے کے باوجود اولاد کی شخصیت کا کوئی کمزور پہلو چھپاتے ہیں تو اس کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح بعض صورتوں میں اولاد بھی محبت کی شادی (Love Marriage)جیسی تکلیف دہ حماقت کا فیصلہ کر بیٹھتی ہے۔ جو یقیناًایک جذباتی فیصلہ ہوتا ہے۔بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پسند کی شادی یا محبت کی شادی کا انجام عمومی طور پر کچھ ہی عرصہ کے بعد انتہائی تکلیف دہ صورت حال میں سامنے آتا ہے۔

ناکام شادیوں کی صورت میں بعض لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ استخارہ تو کیا تھا، معلوم نہیں کہ یہ انجام کیوں برا ہوا؟ ان کو چاہیے کہ وہ ٹھنڈے دل سے مکمل تجزیہ کریں کہ کہیں بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟ کہیں صرف رشتے کے حصول کے لئے لالچ اور خوش گمانی پر اصولوں کو تو نظر انداز نہیں کیاگیا؟ کہیں غیر شرعی اور صرف رسمی انداز میں تو استخارہ پر تکیہ نہیں کیا اور چھان بین کے مرحلے کو ذمہ داری سے پورانہیں کیا؟ اور سب سے بڑھ کر بعد از شادی بیاہ گھریلو معاملات کو غیر اسلامی اور غیرشرعی انداز سے تونہیں چلایا؟ مثلا ً شادی کے رشتہ تک تو استخارہ کو اہمیت دی اور اس کے بعد منگنی سے لےکر شادی اور بعد از شادی معاملات میں دین کو پرے (Side line) کر دیا تو اس پر استخارہ کو قصور وار ٹھہرانا کیا معانی رکھتا ہے؟ بلاشبہ استخارہ دیندار فریق کے لئے ان تمام مصائب سے بچنے کا انتہائی مؤثر اور دافع مشکلات (Preventive) طریقہ ہے۔

استخارہ کا فائدہ:

مشہور محاورہ ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ استخارہ غیر ضروری خطرات اور پریشانی والے معاملات، تکے بازی (Speculations)، خوش گمانی کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے معاملات پر ممکنہ نقصانات اور پریشانیوں سے بچنے کا ایک یقینی نسخہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر معاملات مثلاًشادی بیاہ، کاروبار وغیرہ تو بند مٹھی کے سودے کے مترادف ہوتے ہیںاور کامیابی و ناکامی کاپتہ بعد میں چلتا ہےاور یہ سب نصیب کا معاملہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔استخارہ کے تناظر میں درحقیقت ایسے لوگوں کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار ہی غلط ہوتا ہے مثلاً اگر کسی گھرانے میں دولت کی ریل پیل اور بظاہر سکون ہو تو اس شادی کو کامیاب سمجھا جاتا ہے اگرچہ وہ گھرانہ دینداری ، اخلاقیات اور معاشرت وغیرہ کے اعتبار سے کمزور ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے برعکس اگر کسی گھرانے میں کچھ معاشی تنگی یا مصائب ہوں تو طرفین اکثر ایک دوسرے کو مختلف انداز سے لعن طعن کرتے ہیں اور موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔بعض اوقات لڑکے یا لڑکی کی طرف سے اپنے معاملات اور گھر پر دین نافذ کرنے کی کوشش کو بھی دوسرے فریق کی طرف سے منفی انداز میں لیا جاتا ہے۔اور اس صورتِ حال کے تناظر میں گھر میں کشیدگی کو ناکام شادی اور بڑوں کے غلط فیصلوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔ استخارہ کے تناظر میںایسا سب کچھ سوچنا اور کہنا بالواسطہ طور پر استخارہ کو بے فائدہ قرار دینا، بلکہ عملاً دینی تعلیمات پر اعتراض لگانا ہے۔

شادی کے معاملات میں استخارہ کے ذریعے خیر طلب کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے اسلامی نقطہ ٔ نگاہ سے کامیاب شادی کا تصور یہ ہےکہ میاں بیوی ازدواجی زندگی کے تمام نشیب و فراز مثلاً معیشت و معاشرت میںاتار چڑھاؤیعنی تنگی و فراخی کے باوجود دین کے مطالبوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مکمل ہم آہنگی، باہمی الفت و محبت،عزت و احترام اور صحت و عافیت کے ساتھ زندگی گزاریں۔

چنانچہ ایسےلوگوں کو چاہئے کہ وہ دعائے استخارہ کے الفاظ کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ در حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر احسان ہے کہ اس نے دعائے استخارہ کے ذریعے ہمیں بری تقدیر کے اثرات سے بھی محفوظ رہنے کا ادب سکھایا۔

حدیث رسول ﷺ ہے ـ:

لَا يَرُدُّ القَضَآءَ إِلَّا الدُّعَآءُ، وَلَا يَزِيْدُ فِي العُمْرِ إِلَّا البِرُّ (ترمذی:2139)

’’قضاء کو صرف دعا ہی بدل سکتی ہے اور عمر کو نیکی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بڑھا سکتی۔‘‘ (یعنی عمر میں برکت)

دینی لحاظ سے استخارہ کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اور عقیدہ توحید اور توکل علی اللہ پر بہتر عمل ہوتا ہے۔

استخارہ کے بنیادی مراحل:

1۔ سب سےپہلے معاملے کو شرع کے بنیادی معیار سے جانچیںکہ یہ جائز کام ہے کہ نہیں یعنی اولاً معاملے سے متعلق شریعت کے دستیاب عمومی بنیادی معیار اور رہنمائی سے واقفیت حاصل کریں۔

2۔متعلقہ اچھائی/برائی/کمزوری جاننے کےلئے بھاگ دوڑ کریں اور ضروری چھان بین کریں۔

3۔تردّد یعنی مجموعی اچھائی یا برائی واضح نہ ہونے کی صورت میں اہلِ علم اور جہاں دیدہ افراد سے مشورہ کریں۔

4۔حتمی اطمینان اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ استخارہ کریں۔

استخارہ کس کو کرنا چاہئے اور اس سلسلے میںبنیادی شرائط:

استخارہ عملاً صرف صاحبِ معاملہ کو کرنا چاہئے یعنی وہ فرد جس کا اس معاملے سے براہِ راست تعلق ہو، مثلاًلڑکی کے رشتہ کے لئے اس کا والد یا ولی یا وہ لڑکی خوداستخارہ کرے ۔اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی استخارہ کرسکتے ہیں جو معاملے سے کچھ نہ کچھ تعلق یا رشتہ رکھتے ہوں مثلاً لڑکی کی والدہ یا اس کے نانا، دادا وغیرہ۔ استخارہ کی دعا کے معانی اس نکتہ کو خوب واضح کرتے ہیں کہ دعا کرنے والا خود سائل اور حاجتمند ہے اور اپنے ہی لئے خیر کا طلب گار ہے ۔بالکل غیر متعلقہ فرد سے استخارہ کروانا دعا کے معانی اور مقصد کے خلاف ہوجاتا ہے۔لیکن استخارہ کوئی بھی کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ صحیح العقیدہ ہو، عمومی طور پر بھی ہر معاملے میں دین پر چلنےوالا ہو اور دعائے استخارہ کے معانی اور مطالب سمجھتا ہو صرف مطلب براری یا محض رسمی کاروائی کے طور پر نہ ہو اور خواہشاتِ نفس کو دینی اعتبار دینے کی سوچ نہ ہو اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے والا زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کو حَکم (Authority) سمجھنے والا ہو۔

دین سے لا علم یا بے عمل شخص کیا کرے؟

اگر کوئی شخص دین پر عمل پیرا نہیں ہے یا وہ بالکل لا علم ہے تب بھی اس کو چاہیےکہ وہ گھبرا کر یا مایوس ہوکر اپنا معاملہ نہ توغیر متعلقہ یا نا اہل افراد کے سپرد کرے اور نہ ہی استخارہ کو نظر انداز کرے، اس کو چاہیے کہ وہ استخارہ ضرور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو دین کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ اپنی کوتاہیوں اور ماضی پر نادم فرد کا دین کی طرف لوٹنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔

اس مشکل کا ابتدائی حل یہ ہے کہ جب تک استخارہ کی دعااور مسائل سے واقفیت مکمل نہ ہووہ شخص اس وقت تک اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنی مادری زبان میں سادہ انداز سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہے۔

اس کا ایک عارضی حل یہ ہےکہ وہ دو رکعت استخارہ کےنفل ادا کرکے کسی سے دعائے استخارہ پڑھوائے اور ساتھ ساتھ خود دہرائے۔

اور اس کا مستقل حل یہ ہے کہ ہر انسان مسائلِ استخارہ اور دعا و غیرہ کو سمجھنے کی فکر اور کوشش کرے۔ یعنی استخارہ کے معاملات میں خود کفیل ہو۔یعنی اگرصاحبِ معاملہ دنیا دار آدمی ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے بنیادی رجوع الی اللہ کرے، پاک صاف رہے، توبہ استغفار کرے، پنچ وقتہ نمازکی بروقت ادائیگی کرے اور دیگر معاملات کو سیدھا رکھے اور پھرکسی بھی مسئلے کے لئے اس سے متعلق بنیادی رہنمائی اور ابتدائی شرائط (Pre-Requisites)کو پورا کرتے ہوئے اپنےمعاملات کے لئے خود استخارہ کرے۔ کیونکہ زندگی میں بےشمار معاملات میں استخارے کی ضرورت پیش آتی ہے کب تک غیر شرعی انداز سے دوسروں پر انحصار کریگا!؟۔

غیر شرعی استخارہ کی مروجہ صورتیں:

دین سے عمومی طور پر دور اور دعاؤں سے ناواقف لوگ اپنی سہولت یا صرف محض رسمی کارروائی پوری کرنے کے لئے دیگر لوگوں سے استخارہ کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ یہاں بھی موقع اور مفاد پرست اور دینی لبادے میں ملفوف حضرات اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے دستیاب ہیں۔ میڈیا ئی دین کے سرخیل، پیشہ ور اور اجرتی علمائے سوء اورعامل قسم کے مشرک اور ناپاک لوگوں سے رابطہ کیا جاتاہے جن کے اپنے احوال اور معاملات دینی لحاظ سے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔ مصائب اور مسائل میں گھرے ہوئے پریشان حال انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ مفاد پرست حضرات ہر مسئلے کو استخارہ کے عنوان کے تحت حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، مثلاً بیماریوں کا علاج اور غیب کے معاملات کی خبر وغیرہ۔ درحقیقت علم نجوم اور کہانت کا کاروبار اب استخارہ کے عنوان کے تحت چلایا جارہا ہے۔ اسی طرح قرآنی استخارہ کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں ، اس قسم کے استخاروں کی بھی کوئی سند اور حیثیت نہیں ہے۔اس انداز سے استخارہ جیسی عظیم اور حساس کاروائی کو نمٹانا دنیا و آخرت میں ناکامی کا سودا ہے۔ ہر مسلمان کو سب سے پہلے اپنے دین و ایمان کی فکر کرنی چاہئے کہ کہیں وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے غیر اللہ سے رہنمائی و مدد کی صورت میںدیگر کبیرہ گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں شرک جیسے گناہ کا مرتکب نہ ہوجائے۔

نوٹ: استخارہ کے لئے مشہور جملہ

اَللّٰهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي

صحیح احادیث سے ثابت نہیں اس لئے احتیاط کرنی چاہئے   (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، 4/25)

چھان بین اور مشاورت کی اہمیت :

مسلمان کو چاہئے کہ استخارہ کے ساتھ ساتھ مطلوبہ معاملے سے متعلق ضروری معلومات اور زمینی حقائق بھی معلوم کرے اور اس کے لئے جامع انداز سے چھان بین کرے خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے لڑکی کے دین، اخلاق ،صحت،دوست، مصروفیات اور متعلقہ ضروری صلاحیتوں کے متعلق چھان بین ضرور کرے اورچھان بین کے ضمن میں مشورہ دینے والے سے تاکیداً پوچھا جائے کہ وہ دستیاب معلومات ضرور فراہم کرےکیونکہ یہ زندگی بھر کے معاملات ہوتے ہیں۔ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ ہر معاملے کے لئے دو بنیادی معیار ہوتے ہیں:

1پہلا معیار معاملے کیلئے لازمی حصہ ہوتا ہے۔ یعنی وہ شرائط جن کو پورا کرنا لازمی ہے۔

2دوسرا معیار معاملے کی مزید بہتری کے لئے یقینی اطمینان کہلاتا ہے۔

چھان بین کو عام اصطلاح میں لازمی معیار/شرط (Necessary Condition)کہتے ہیں۔ اس مرحلے پر اہلِ علم و معاملہ فہم اشخاص سے مشورہ طلب کرنابھی اہم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَ شَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ(اٰل عمران:159)

اورمعاملات میں ان سے مشورہ کیا کیجئے۔

یہ خطاب اگرچہ نبی اکرم ﷺ کو ہے، حالانکہ آپ ﷺ لوگوں میں کامل ترین شخص تھے، پھر بھی حکم ہے کہ صحابہ کرام yسے معاملات میں مشاورت کریں، چنانچہ آپﷺ نے بھی، آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اس حکم پر عمل کیا یعنی جو جو معاملہ تردد کا شکار ہوا اس پر مشاورت کی گئی۔ چنانچہ اہل لوگوںسے مشورہ کریں۔اس کے ساتھ ساتھ استخارہ جاری رکھیں، چھان بین اور مشاورت کے ساتھ ساتھ استخارہ اصطلاحاً ( Sufficient Condition) کہلاتا ہے۔ اور جب یہ دونوں مراحل (لازمی اور کافی شرائط) اطمینان ِ قلب اور قابل قبول صورت کیفیت کی طرف جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ استخارہ بھی موافق ہے۔

مشاورت کے اہل شخص کی خصوصیات:

علم اور تجربہ میں مہارت رکھنے کے ساتھ دینی اعتبار سے مخلص اور آپ کا خیرخواہ ہو اورجلد باز نہ ہو۔ امانت و دیانت میں بھی بے مثال ہو، کیونکہ حدیث ہے: ’’اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت کی پاسداری نہ کرتا ہو، اور اس کا دین نہیں جو عہد کی پاسداری نہ کرتا ہو۔‘‘(مسند احمد:13637 )

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دینی امور میں مخلص نہ ہو تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلص نہیں اورجو اپنے رب کے ساتھ مخلص نہیں وہ اس کی مخلوق کے ساتھ کیسے مخلص ہوسکتا ہے ؟مشورہ دینے والے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اگروہ متعلقہ معاملے میں کسی کمزور پہلو سے واقف ہے تو وہ حق بات کو چھپائے نہیں بلکہ مناسب انداز سے واضح کرکے بری الذمہ ہوجائے۔

استخارہ کس طرح رہنمائی کرتا ہے:

اگرسائل اوپر بیان کردہ تمام بنیادی شروط کو پوراکرے یعنی اگر وہ ابتدائی رہنمائی اور عملی چھان بین اور مشورہ کے ساتھ ساتھ عاجزی سے استخارہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر معاملے کی اچھائی یا برائی واضح کر دیتے ہیں۔ اور راہ یا تو ہموار تر ہوجاتی ہے یا پھر نا موافق حقائق اور عملی رکاوٹیں انسان کو ایک واضح اشارہ دے دیتی ہیں کہ بہتری کس میں ہے۔ امکانی طور پر خواب میں بھی کچھ ایسی چیز یا نکتہ سامنے آسکتا ہے جو فیصلہ کرنے میں آسانی کردے مگر اس سلسلے میں کسی خواب وغیرہ کا انتظار نہ کریں۔استخارہ کے بعد خواب کا آنا لازم نہیں، تاہم استخارہ کے بعد خواب آئے تو وہ سچا ہوگااور اس کی صحیح تعبیر اہل لوگوں سے دریافت کریں۔

بعض استخارہ شدہ معاملات میں ناکامی کی اصل وجوہات:

بعض لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ استخارہ تو کیا تھا، نہ معلوم یہ انجام کیوں برا ہوا؟جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ ناکامی کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریںکہ کہیں بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟ کہیں کسی چیز کے حصول کے لئے لالچ اور خوش گمانی کے تحت اصولوں کو تو نظر انداز نہیں کیا؟ کہیں غیر شرعی اور صرف رسمی انداز میں تو استخارہ پر تکیہ نہیں کیا اور چھان بین کے مرحلے کو ذمہ داری سے پورانہیں کیا۔ اور سب سے بڑھ کر بعد از استخارہ معاملے کو غیر اسلامی اور غیرشرعی انداز سے تونہیں چلایا؟

بے جا تشکیک، گمان اور خدشات سے بچنا ضروری ہے:

اگر کوئی معاملہ اسلام کی دی گئی بنیادی رہنمائی اور شرائط پر پورا اترتا ہے یعنی چھان بین کے تمام شرعی نکات کے مطابق ہے اور صاحب/اصحابِ معاملہ خلوص نیت اور صمیم قلب سے اس پر استخارہ بھی کرتے ہیں اور عمومی اطمینان قلب بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ تو اس کے بعد بعض دنیاوی اور معاشرتی معیار اور ظاہری کمزوریوں پر بلاوجہ فکرمند ہونے اور خدشات میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ قرآنی رہنمائی مثلاً :

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(الشرح:5)

ترجمہ:بلاشبہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اور

فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ (اٰل عمران:159)

ترجمہ:پھر جب آپ (ﷺ،کسی رائے کا) پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔

کی روشنی میں اپنے ارادے پر عملدر آمد کرے اور آگے کے تمام معاملات پر دین کے تمام اصولوں کا اطلاق کرے۔ یہ نہ ہو کہ فیصلہ تو استخارہ کے مطابق ہومگرعمل من چاہے اصولوں کے مطابق ہو۔ تو پھر انجام بخیر کیسے ہوگا؟

سیدناعبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’استخارہ میں جو فیصلہ ہوجائے اس پر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

(الرضا عن الله بقضائه، لابن ابی دنیا:56)

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ترجمہ:’’ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھا سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور تم محض بےخبر ہو ۔‘‘(سورة البقرة : 216)

غیر موافق استخارہ کیا معنیٰ رکھتا ہے:

اگر کسی معاملے میں چھان بین اور استخارہ کے دوران کچھ ایسی تفاصیل سامنے آئیں جو اس چیز یا معاملے کی کمزوری اور خرابی ظاہرکریں اور ان وجوہات کی وجہ سے اس چیز یا فرد کے انتخاب میں کوئی فکر یا ہچکچاہٹ/خطرہ محسوس ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ استخارہ اس چیز/معاملے کے حق میں نہیں ہے۔ اثر کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے مراحل اور نتائج کے حوالے سے اس چیز کا انتخاب سائل کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے اور اس سے رک جانا ہی بہتر ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ چیز یاصاحبِ رشتہ یا معاملہ خراب یا برا نہیں ہے بلکہ آپ کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک قیمتی گاڑی یا بڑے گھر کی تمنا یا کسی مخصوص شریکِ حیات کی آرزو رکھتا ہے اور اس کا پرخلوص استخارہ اس کو غیر موافق محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے بعدکے معاملات و اثرات شاید نبھانہ سکےگا۔رشتے کے معاملے میں غیر موافق استخارے کا مطلب یہ ہے کہ نتائج کے اعتبار سے یہ بندھن مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے ایسی چیز سے بچنابہتر ہے۔

غیر موافق استخارہ کا اظہار کس طرح کیا جائے؟(اصولِ معذرت)

حساس معاملات مثلا رشتہ وغیرہ کے معاملات میں معذرت اور انکار کو بھی شائستہ انداز میں پہنچانا چاہیے تاکہ دل آزاری نہ ہو اوراگر فریقِ ثانی کی کوئی کمزوری یا برائی واضح بھی ہو تب بھی اس کوبطور وجہ بیان نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی دوسروں میں اس کا چرچاکرنا چاہئے۔ سادہ وجہ یہی بیان کی جائے کہ ’’استخارہ اور باہمی مشورہ اس معاملے کے لئے قابلِ اطمینان نہیں ہے۔ اس لئے معذرت چاہتے ہیں۔ ‘‘

استخارہ کے ضمنی مسائل:

1۔ استخارہ کے لئے خاص نیت کرکے الگ سے دو رکعات ادا کرنامسنون ہے۔ استخارہ کی نماز (نوافل) کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیںہے مگر قبولیتِ دعا کے اوقات میں استخارہ زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ البتہ نماز کے احکامِ اوقات کے ضمن میں مکروہ اوقات میں استخارہ نہ کرنا بہتر ہے۔ نیز سورہ فاتحہ کے بعدقرآن مجید کے کسی بھی حصہ کی تلاوت کی جاسکتی ہے۔

2۔ اگر نماز ممنوع ہو جیسے خواتین کے ساتھ بعض اوقات صورتحال ہوتی ہے تو ایسی صورت میں نماز کی اجازت تک صبر کیا جائے، اگر انتہائی مجبوری ہو تو صرف دعائے استخارہ پڑھی جاسکتی ہے۔

3۔ استخارہ کی دعا اگر یاد نہ ہو تومجبوری کے تحت اسے کسی رقعہ وغیرہ میں دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں، اگر دعا یاد کرلی جائے تو بہت ہی اچھا ہوگا۔نیز پڑھنے سے بالکل قاصر فرد کو چاہئے کہ کوئی دوسرا فرد اس کے سامنے پڑھےاور وہ اس کو دُہرائے۔بالکل غیر متعلقہ فرد سے استخارہ کروانا غلط ہے اور بے شمار خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔

4۔ اگر دعا ئے استخارہ نفل کے تشہد میں سلام سے قبل پڑھی جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

5۔استخارہ کے بعد اس معاملہ کے متعلق جو ارادہ بنے کرلیں، کسی خواب وغیرہ کا انتظار مت کریں۔

6۔ اگر معاملہ کی جانب کوئی مصمم ارادہ نہ بنے تو بار بار استخارہ کریں۔(کم از کم تین بار۔صحیح مسلم)۔

7۔ دعائے استخارہ رسول اکرم ﷺ کی سکھائی گئی دعا ہے، لہٰذا اس سے نہ تو زیادہ کریں اور نہ ہی کم ، یعنی الفاظ میں کمی بیشی نہ کریں۔

8۔کسی معاملہ میںآپ کا ارادہ اگر ایک جانب مائل ہو تو اس کو دل میں زیادہ اجاگر نہ کریں، یعنی اگر آپ کو کوئی رشتہ زیادہ پسند ہے، یا کوئی گاڑی وغیرہ زیادہ پسند ہے تو آپ کی چاہت اس جانب ہوگی، استخارہ کے وقت دل میں اس کے خیر و شر دونوں پہلوں کو مد نظر رکھ کر استخارہ کی دعا مانگیں نہ کہ صرف خیر خیر ۔ !!

9۔ مختلف معاملات کے لئے الگ الگ استخارہ کیا جائے۔

10۔ اپنے آپ کو استخارہ کا عادی بنائیں، چاہے کوئی چھوٹا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔

استخارہ کرنے کا طریقہ:

دین بہت سادہ ہے، استخارہ کے لئے خصوصی طور پر دو رکعت اپنے مسئلے پر استخارہ کی نیت کرکے ادا کریں اور اس نفل نماز کے بعد دعا مانگنےکے عمومی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئےکہ ہاتھ اٹھا کر ابتداء میں سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی آخری دو آیات اور درود شریف کے ساتھ اپنی دعا کا آغاز کریں کیونکہ عمومی طور پر بھی یہ ابتدائی دعائیں قبولیتِ دعا کے لئے فائدہ مند ہیں۔اس کے بعد مندرجہ ذیل استخارہ کی دعا اسکے معانی خوب اچھی طرح سمجھ کر پڑھیں ۔

دعائے استخارہ:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ   وَ اَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْ رَ تِکَ

اے اللہ !میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ خیر مانگتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ قوت طلب کرتا ہوں

وَ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ
تَقْدِ رُ   وَ لَآ اَ قْدِ رُ

اور تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں اس لئے کہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا

وَ تَعْلَمُ وَ لَآ   اَ عْلَمُ وَ اَ نْتَ   عَلَّا مُ الْغُیُوْ بِ

اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے

اَ للّٰھُمَّ   اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ

اے اللہ !تیرے علم میں اگر یہ بات ہے

اَ نَّ   ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ   لِّی فِیْ دِ یْنِیْ   وَ مَعَاشِیْ   وَ عَا قِبَۃِ   اَ مْرِیْ

کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں بہتر ہے

فَا قْدُ رْہُ     لِیْ   وَ یَسِّرْہُ     لِیْ   ثُمَّ بَا رِکْ   لِیْ   فِیْہِ

تو اسے میرے مقدر میں کر دے اور میرے لئے اس کو آسان کر دے پھر میرے لئے اس میں برکت ڈال دے

وَ   اِنْ کُنْتَ   تَعْلَمُ

اور تیرے علم میں اگریہ بات ہے

اَ نَّ   ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّی فِیْ دِ یْنِیْ   وَ مَعَاشِیْ   وَ عَا قِبَۃِ   اَ مْرِیْ

کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں برا ہے

فَاصْرِفْہُ   عَـنِّیْ   وَ اصْرِفْنِیْ   عَنْہُ

تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے

وَ اقْدُ رْ لِیَ الْـخَیْرَ حَیْثُ   کَانَ   ثُمَّ   اَرْضِنِیْ     بِہٖ

اور میرے مقدر میں بھلائی رکھ دے جہاں بھی ہو پھر مجھے اس پر راضی کر دے

بخاری (6382) ابو داوٗد (1538)

دعا میں خط کشیدہ (under line)الفاظ ھٰذَا الْاَمْرَ پڑھنے کے بجائے اپنی حاجت کا نام لیں۔

استخارہ ان لوگوں کے لئے فائدہ مند ہوگا جو…

1۔ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے توحید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوںاور عملی زندگی میں قرآن و سنت پر کاربند ہوں۔

2۔ اگر دین سے لاعلم اور عملی طور پر دور ہوں لیکن احساسِ زیاں رکھتے ہوں یعنی ماضی پر شرمسار ہوں اور مستقبل کے حوالے سے دین پر کاربند رہنے کی فکر رکھتے ہوں ۔

3۔ زندگی مقصدِ حیات کے تحت سادگی سے گذارتے ہوں یا کم از کم احساس رکھتے ہوں۔

4۔ جن کا مقصد ِ استخارہ زندگی کے مسائل و معاملات میں رہنمائی کے لئےصرف خیر کا حصول ہو۔

5۔ جو دین کے لحاظ سے خیر کے مفہوم کو سمجھتےاورحصول کی خواہش رکھتے ہوں۔

6۔ استخارہ کے مرحلے پر اس کی ابتدائی شرائط اور عملی ضابطوں کو پورا کرتے ہوں۔

اس کے برعکس استخارہ ان لوگوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا جو…

1۔ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے توحید کے تقاضوں اور شریعت کے منافی زندگی گزارتے ہوں اور قبولیت ِ دعا کے منافی کام مثلاً حرام آمدنی وغیرہ کا ارتکاب کرتے ہوں۔

2۔ دین سے لاعلم اور عملی طور پر دور ہونے کے ساتھ ساتھ اسی روش پر مُصر، خوش اور مطمئن ہوں۔

3۔ آخرت کی فکر اورمقصد ِ حیات کے برعکس صرف دنیاوی زندگی اور اس کی بہتری کو ترجیح دیتے ہوں۔

4۔ جن کا مقصد ِ استخارہ صرف رسمی ہو اور اسراف، تکاثر کے تحت پر تعیش زندگی کو جواز دینے کی سوچ رکھتے ہوںاور اپنےآپ کو دین کے مطالب پر لانے کے بجائے استخارے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہوں۔

5۔ استخارہ کے مرحلے پر اس کی ابتدائی شرائط اور عملی ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوں۔

کیونکہ…

ایسے ہی لوگوں پر ان کی غیر شرعی طرزِ زندگی اورکبیرہ گناہوں کی وجہ سےتقدیر کی بدبختی غالب آجاتی ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ ناکامیوں اور برے انجام کی وجہ انسان کو اپنے اندر ہی ڈھونڈنی چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے