نیکی ، بھلائی اور خیر کا ایک مخصوص تصور ہر انسان کے ذہن میں ہوتا ہے۔جس پر عمل کر کے وہ اپنی ذات میں سکون اور طمانیت محسوس کر تا ہے۔ یہ جذبہ دنیا کے ہر مذہب اور قوم میں کسی نہ کسی شکل میں اپنا اظہار کر تا رہتا ہے۔نیکی تو ویسے بھی اپنی ذات میں متعدی ہوتی ہے اور ایک سے دوسرے تک غیر محسوس طریقے سے سرائیت کر جاتی ہے۔

اسلام ایک الہامی دین ہے۔ اس کی سرشت میں کسی دنیاوی فلسفے کا شائبہ تک نہیں، فلسفہ کا دائرہ محض فکرکا میدان ہے جبکہ اسلام فکر سے زیادہ عمل پر زور دیتا ہے۔چنانچہ اس کے ماننے والوں میں یہ جذبۂ خیر بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے، بشرطیکہ کسی انسان کی ذہنیت ہی مسخ نہ ہوگئی ہو۔بحیثیت مجموعی مسلمان اپنے فطری میلانات کی بنا پر امن و سلامتی اور خیرو بھلائی کا داعی ہوتا ہے۔اسلام اپنی تعلیمات سے قلوب و اذہان کو مسخر کر نے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے اور جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ کہلانے کا اصل حقدار ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام خوبیوں،اچھائیوں اور کار خیر کا مرکز دین اسلام ہی ہے۔خالق کائنات نے نیکی اور بھلائی کے کا موں میں ایک دوسرے سے تعاون کر نے کی تعلیم دی ہے۔ارشاد ربانی ہے: ’’ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔(المائدہ۲)

نیکی، بھلائی، ایثار و قربانی کے علاوہ ایک عظیم اجر و ثواب کا کام اللہ کے راستے میں اللہ کا دیا ہوا مال فراخ دلی سے خرچ کرنا بھی ہے۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’تم اللہ کے بھروسے پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کر تی رہو اور گنو مت۔ اگرتم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دوگی تو وہ بھی تمہیں حساب سے ہی دے گا۔ اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا۔لہٰذا تھوڑا بہت جو کچھ ہو سکے اور جس کی توفیق ملے اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے دیتی رہو‘‘۔ (متفق علیہ)

اللہ کے راستے میں دینے سے انسان کے دل میں بندگان خدا کے لیے ہمدردی، جذبۂ اخوت پیدا ہوتا ہے اور مال سے رغبت اور حرص و طمع جاتا رہتا ہے۔ ایک صالح بندے کے ذہن میں ہر وقت یہ حقیقت تازہ رہنی چاہیے کہ یہ مال و متاع ، رزق کی فراوانی، ضروریات زندگی میں سہولت و کشادگی ، سب اللہ کی نظر کرم کے طفیل سے ہیں۔وہ اگر دینا نہ چاہے تو انسان پر سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور اگر وہ کسی کو نوازنے کا فیصلہ فرمالے تو دنیا و آخرت کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ: بکری میں سے کیا باقی رہا؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ: صرف ایک دستی اس کی باقی ہے(باقی سب ختم ہوگی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: اس دستی کے علاوہ جو اللہ کی راہ میں تقسیم کیا گیاہے دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے۔(یعنی آخرت میں ان شاءاللہ اس کا اجر ملے گا)۔ (صحیح الترغیب والترھیب)

انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے مخیر حضرات کو اس امر کا بھی جائزہ لینا لازمی ہے کہ ان کے ہاتھ سے دیا ہوا مال اصل مستحق کو پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ دور جدید کی دیگر بے شمار برائیوں میں ایک برائی مکاری، تصنع اور دھوکے بازی سے خود کو مظلوم اور حاجت مند بنا کر پیش کر نا بھی عام چلن بن گیا ہے۔اس ضمن میں نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ جعلی اور دھوکہ دہی کے بے شمارادارے اور نام نہاد مذہبی تنظیموں اور اداروں کا روپ دھارکراور سادہ لوح مسلمانوں کے مذہبی جذبے کو ابھار کر ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کر لی جاتی ہیں۔ اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ بھی الل ٹپ اور حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر کے نہیں ہونا چاہیے۔اس طرح اصل حقدار محروم رہ جاتا ہے اور شاطر اور چالباز لوگ موقع سے فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔

قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کر نا اور دوسروں تک بھی اللہ کا دین پہنچانا ایک مسلمان کے لیے بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔ علم کی شان یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے ہی انسان اپنی ذات کی معرفت حاصل کرتا ہے بلکہ اللہ کی ذات کا عرفان بھی اسے حاصل ہوجاتا ہے۔ پھر علم ہی انسان میں خوف پیدا کرتا ہے۔اور اس کے حوالے سے وہ اپنی موجودہ زندگی اور بعث بعد الموت کے لیے بھی پیش بندی کر نے کے لائق ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اللہ کے بندوں میں سے جو علم رکھتے ہیں وہی تو اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘(فاطر ۲۸)

اور علم کی فضیلت کو ایک اور مقام پر یوں فرمایا: ’’ اور جو شخص اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘ (الرحمٰن ۴۶)

گویا اللہ کا خوف جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے اور یہ خوف علم کے ذریعے سے پیدا ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں یوں تو کثیر تعداد میں رفاہی اور فلاحی ادارے اور انسانی خدمت کی انجمنیں اپنے فرائض اپنے اپنے طریقوں سے انجام دے رہی ہیں، جن میں کئی ایسے ادارے بھی ہیں جو بلا شبہ مالی امداد کے مستحق ہیںاور مخیر حضرات کے مالی تعاون سے ہی خود کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ہمارے ہاں علم دین کی روشنی سے نو جوان نسل کو منور کرنے کے لیے مدارس اور دینی ادارے قرآن و سنت کی تعلیم پوری لگن، محنت اور للہیت کے ساتھ برسہا برس سے دئے جا رہے ہیں۔یہ علم و آگہی کے وہ عظیم الشان مراکز ہیں جو اپنی مدد آپ کے طور پر دین کی یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی سرپرستی ان قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں لگانے والوں کو حاصل نہیں ۔ لیکن سلام ہے ان کی عزیمت اور دین کی نشر و اشاعت کی سعی و جہد کو۔ان دین اسلام کے روشن میناروں میں صرف طلبا ء کو علوم دینیہ کی محض تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ ان کو ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں بھی بلا کسی معاوضے کے مہیا کی جاتی ہیں۔جس میںدرسی کتب، کھانا، رہائش ،لباس اور ما ہانہ وظائف بھی طلباء کو ہر ماہ دئے جاتے ہیں تاکہ وہ اسے اپنی جیب خرچ   (pocket money) کے طور پر استعمال کر سکیں اور کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔پھر اساتذہ کے مشاہرے، بجلی، گیس، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کے تمام اخراجات کا بوجھ یہ مدارس اپنے طور پر ہی اٹھاتے ہیں۔عوام کے ووٹوں سے ایوان اقتدار میں پہنچنے والوں نے کبھی بھول کر بھی ان دینی مدارس کی طرف ایک نظر التفات نہیں ڈالی۔ انہیں مدارس کے فارغ التحصیل طلباء منبر و محراب کے امین بن کر بھٹکے ہوئے انسانوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے قرآن و سنت کی تعلیمات سے آشنا کر تے ہیں۔یہی لوگ اصل وارث انبیاء کہلانے کے مستحق ہیں۔

علم دین کے ان پیاسوں اور ان کو قرآن و سنت، اسلامی قانون، حلال و حرام، فرائض و و ا جبات، معروف و منکر ، مؤکد و مستحب سے علم و آگہی عطا کرنے والے اساتذہ کرام ، انفاق فی سبیل اللہ کے زیادہ مستحق ہیں، اس لیے کہ درس و تدریس کی مصروفیات انہیں معاش کی بھاگ دوڑ کے لیے وقت نہیں دے پاتیں۔ چنانچہ ایک مؤمن مسلمان کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کر نے کا اس سے بہتر اور اجر و ثواب کے اعتبار سے قرابت داروں کے بعد کوئی اور مقام نہیں ہے۔ایک عالم ہزاروں انسانوں کو رشد و ہدایت کی روشنی دکھا تا ہے ۔ایک مسلمان استاد یا معلم کے کام کی نسبت انبیاء علیہم السلام کے مشن اور مساعی سے ہوتی ہے، جن کا مقصد حیات لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ، ان کے نفوس کا تزکیہ کرنا، انہیں اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہوتا ہے۔ اور خود ان انسانوں کی سیرت دیگر انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہوتی ہے۔ اسلام کا دامن ایسے جید اور زہد و ورع کے حامل بزرگان دین اور علمائے حق سے بھرا ہواہے جنہو ں نے اسلام کی ابدی صداقتوں کی ایسی تشریح و توضیح کی ہے جو قرآن و سنت کا اصل مدعا ہے۔آج کے دور میں جہاں دین کا حلیہ بگاڑنے والے منبر و محراب سے میڈیا تک جا پہنچے ہیں اور لوگوں کو اصل فلسفہ دین سے گمراہ کر کے انہیں بدعت و خرافات کی راہ دکھا کر ان کے ایمان و عقائد پرتیشہ زنی کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے۔ چنانچہ اس قحط الرجال کے ماحول میں علماء حق بھی اللہ کی تائید و نصرت سے ان فتنوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دین کا سچا درد رکھنے والوں پر یہ لازم ہے کہ وہ ان حق کے پرستاروں کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ اللہ کا وہ دین جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کے حوالے کیا تھا، ہمارے علماء اسی سیاق و سباق کے ساتھ آج کی امت مسلمہ تک پہنچا سکیں۔چنانچہ دام ،درہمے ، قدمے، سخنے ہر جہت اور ہر پہلو سے ان کی نصرت کی جائے۔ یہی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا مفید اور اصل مقام ہے۔

دشمنان اسلام دینی مدارس اور علماء حق کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت کے نور سے جگماتے ان روشن چراغو ں کو بجھادیا جائے۔ لیکن جس کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو، اس روشنی کو بھلا کون بجھا سکتا ہے۔اللہ کا تو اپنے مؤمن بندوں سے وعدہ ہے کہ: ’’ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گااور تم کو ثابت قدم رکھےگا‘‘ ( سورۃ محمد 2)

چنانچہ اللہ کے بندوں تک اللہ کے دین کو پہنچانا ، اللہ کی مدد کر نے کے کا بہترین راستہ ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیم، طلبا ء کی کردار سازی اور انہیں ایک اچھا مسلمان بنانے کے لیے مدارس کا بہت بڑا کردار ہے۔ یہ علم و آگہی کے وہ گہوارے ہیں جن سے ہزاروں طلبہ سالہا سال سے علوم دینیہ سے اپنا دامن بھر کر رخصت ہوتے ہیں۔ اور مساجد و مدارس میں بیٹھ کر اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور اس طرح انسانی معاشرے میں چراغ سے چراغ جلتے جا تے ہیں۔ اس لیے ان کا یہ حق ہے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ نے دولت و ثروت سے نوازا ہے، وہ ان مدارس کی بھرپور سرپرستی کریںتاکہ ان چراغوں کی روشنیاں ہمیشہ فروزاں رہیں کیونکہ ’’ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘۔ اوریقینا ان چراغوں کو جلائے رکھنا ہر صاحب خیر کے لیے تعاون علی البر ثابت ہوگا۔ وما توفیقی الا باللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے