شعبان اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے جو ماہ رجب کے بعد اور رمضان المبارک سے پہلے آتا ہے۔

لفظ شعبان شعب سے مشتق ہے شعب باب ’’فتح یفتح‘‘ اور باب ’’سمع یسمع‘‘ سے مصدر ہے اس کا معنی جدا کرنا اور جمع کرنا دونوں آتے ہیں جیساکہ محاورہ ہے ’’اشعب لی شعبۃ من المال‘‘ میرے لیے اپنے مال میں سے ایک حصہ الگ کر دو۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے ’’شعب الی قوم‘‘ وہ اپنی قوم سے جاملا۔

فضیلت ماہ شعبان

ماہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔

جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَصُومَهُ: شَعْبَانُ، ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ (حدیث 2431، سنن أبي داود (2/ 323)

روزے رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کو شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ پسند تھا پھر آپ اسے (گویا) رمضان ہی سے ملا دیتے تھے۔

ایک دوسری روایت میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلًا بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ (ح 737، سنن الترمذي (3/ 105)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا آپ اس میں روزے رکھتے تھے سوائے چند ایام کے بلکہ آپ پورے مہینے میں ہی روزے رکھتے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نفلی روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزے رکھنا چھوڑیں  گے نہیں اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے نہیں۔ میں نے رمضان کے علاوہ آپ کو کبھی پورے مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ صلی اللہ علیہ و سلم شعبان میں رکھتے میں نے کسی اور مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔ (بخاری ح 1949، مسلم ح 1156)

قارئین کرام! ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے مہینوں کی بہ نسبت شعبان میں زیادہ نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔

شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی حکمت

ماہ شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی حکمت کے بارہ میں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ (ح، 2357، سنن النسائي (4/ 201، حکم البانی حسن)

شعبان وہ مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اور رمضان کے درمیان کے درمیان روزے سے غافل ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپر اٹھائے جائیں۔

اس حدیث سے شعبان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بکثرت روزے رکھنے کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں بالخصوص اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں عملوں کی ایک پیشی تو روزانہ صبح و شام (نماز فجر و نماز عصر کے وقت) ہوتی ہے۔

دوسری پیشی ہفتے میں دو دن ہوتی ہے یعنی ہر سوموار اور جمعرات کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔

اور تیسری پیشی جو گویا سالانہ پیشی ہے ماہ شعبان میں ہوتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا اور جس کی وجہ ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس ماہ میں کثریت سے روزےرکھتے تھے۔

نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا

(ح 738، سنن الترمذي (3/ 106)

جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو تم روزہ نہ رکھو۔

اس حدیث میں نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت ہے لیکن دوسری احادیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور کثرت کا مفہوم تب ہی صادق آتا ہے جب نصف سے زیادہ روزے رکھے جائیں اہل علم نے ان احادیث میں تطبیق کی کئی صورتیں بیان کی ہیں۔

1۔ یہ نہی تنزیہی ہے نہ کہ تحریمی

2۔ یہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں کثرت صیام سے کمزوری کا خطرہ ہو۔

3۔ اس ممانعت سے مقصود یہ ہے کہ طاقت اور توانائی بحال رہے تا کہ رمضان کے فرضی روزے رکھنے میں دقت پیش نہ آئے۔

4۔ یہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جو نصف شعبان کے بعد خصوصی اہتمام سے روزے رکھتے ہوں لیکن اگر کسی کا معمول ہو جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

5۔ یہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جو رمضان کے استقبال میں روزہ رکھیں جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم رمضان کے استقبال میں روزہ نہ رکھو مگر یہ کہ تم میں سے کوئی ایک (معمول کے ساتھ پہلے سے) روزہ رکھتا ہو تو اس کی روزے کے ساتھ موافقت ہو جائے مثلا سوموار اور جمعرات کا روزہ۔

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس شخص کےلیے ہے جو عمداً رمضان کی خاطر نصف شعبان کے بعد روزہ رکھے۔

شعبان کے آخری دنوں کا روزہ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذَلِكَ اليَوْمَ (ح 1914، صحيح البخاري (3/ 28)

تم میں سے کوئی آدمی رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے لیکن اگر کوئی شخص اپنے معمول کے روزے رکھتا ہو تو رکھ لے۔ یعنی کسی کا معمول ہے کہ وہ ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہے یا صوم داؤدی رکھتا ہے تو یہ روزے اگر رمضان سے دو تین دن قبل واقع ہوں تو وہ یہ روزے رکھ سکتا ہے کیونکہ اس سے مقصود استقبال رمضان نہیں ہے بلکہ روزمرہ کے معمولات کو پورا کرنا ہے اس لیے یہ ممانعت کے حکم میں نہیں آئیں گے۔

ماہِ شعبان اور شب برأت

ماہ شعبان کی پندرھویں رات ’’شب براءت‘‘ کے نام سے معروف ہے آج کے اس دور میں بدعات و رسومات اس قدر رواج پا چکی ہیں کہ ایک سادہ مسلمان اس وقت تک سنت اور بدعت میں فرق محسوس نہیں کر سکے گا جب تک وہ آنکھوں سے تعصب کا پردہ ہٹا کر تحقیق کی جانب نہ بڑھے اور جہالت لوگوں میں اتنی سرایت کر چکی ہے کہ ایک مسلمان شب براءت کے موقع پر آتش بازی اور پٹاخے چلاتا ہے تو دیکھا دیکھی دوسرا مسلمان بھی اس کا بڑا اہتمام کرتا ہے حالانکہ انہیں پتہ نہیں کہ آتش بازی یا آتش پرستی مجوسیوں کا کام ہے ان کی مشابہت ہے۔

رسول کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (ح 4031، سنن أبي داود (4/ 44)

جس شخص نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہوا۔

باقی شب برأت کو اصل اہمیت ہمارے کم علم واعظین اور صوفی منش لوگوں نے من گھڑت اور ضعیف روایات سے بخشی ہے بالفرض اگر کچھ فضیلت تھی بھی تو وہ بھی مبالغہ آمیزی اور بدعات کے گرد غبار میں چھپ کر رہ گئی۔

ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے

نالہ کرتا ہوں تو اندیشہ رسوائی ہے

شب برأت کے متعلق صحیح روایت اور اس کا صحیح مفہوم

سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَيُمْلِي لِلْكَافِرِينَ، وَيَدَعُ أَهْلَ الْحِقْدِ لِحِقْدِهِمْ حَتَّى يَدَعُوهُ

بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو اپنے بندوں پر رحمت کی نظر ڈالتا ہے پھر مومنوں کو معاف کر دیتا ہے اور کافروں کو ڈھیل دے دیتا ہے اور کینہ پرور کو چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دلوں کو کینہ سے پاک کر لیں۔(صحیح الجامع للالبانی رقم 1898)

محترم قارئین! یہی وہ حدیث ہے جو شعبان کی پندرھویں  رات کی فضیلت میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی جاتی ہے اس کے علاوہ جتنی احادیث عام طور پر بیان کی جاتی ہیں اور جنہیں اخبارات اور محفلوں کی زنیت بنایا جاتا ہے وہ سب کی سب سنداً انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت ایسی خرافات سے پاک ہے۔

شب برأت کے متعلق چند روایات کا جائزہ

شب برأت کی نسبت سے جو کمزور اورمن گھڑت روایات عام طور پر پیش کی جاتی ہیں ان میں سے چند ایک کی تحقیق پیش خدمت ہے۔

1۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بستر پر موجود نہ پا کر (میں نے تلاش کیا تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم بقیع الغرقد (مدینہ منورہ کے معروف قبرستان) میں تھے آپ نےمجھے دیکھ کر فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی (دوسری) بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ

(ح 739، سنن الترمذي (3/ 107، اسنادہ ضعيف)

بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر نازل ہوتاہے پھر اتنے لوگوں کی مغفرت کرتا ہے جتنے بنو کلب کی بکریوں کے بال ہیں۔

تحقیق: محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس رویات کو ضعیف قرار دیا ہے اور انہوں نے اسے ضعیف سنن الترمذی، ضعیف سنن ابن ماجہ اور ضعیف الجامع الصغیر وغیرہ میں درج کیا ہے۔

اور الشیخ زبیر علی زئی نے بھی اس روایت کو ’’انوارالصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ‘‘ میں ضعیف سنن ترمذی میں درج کیا ہے رقم صفحہ: 209

قارئین کرام! یاد رہے کہ قصہ عائشہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بقیع میں جانے اور اہل بقیع کے لیے دعا کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اور صحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلاً موجود ہے لیکن اس میں شعبان کی پندرھویں رات کا کوئی ذکر نہیں مکمل واقعہ کے لیے دیکھیں: صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ما یقال عند۔۔۔۔۔ رقم 974

لہذا جو واعظین اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس رات قبرستان جانے کی ترغیب دیتے ہیں وہ روایت کی سند پر غور فرما لیں اور پھر صحابہ کرام جو ہر نیکی کے کام میں سبقت لے جانے والے تھے اور رسول اللہ کے قول و فعل کو زیادہ سمجھنے والے اور ان کی رمزشناس تھے وہ کبھی اس رات مجمع کی صورت میں یا جتھ بند ہو کر قبرستان وارد نہیں ہوئے۔

2۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے عائشہ) کیا تم جانتی ہو یہ (یعنی نصف 15 شعبان کی رات) کو ن سی رات ہے؟ سیدہ عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس رات میں بنی آدم کے اس سال پیدا ہونے والے بچوں کے بارہ میں لکھا جاتا ہے اس میں بنی آدم کے اس سال ہر فوت ہونے والے انسان کے متعلق لکھا جاتا ہے اس میں ان کے اعمال (اللہ تعالیٰ کی طرف) اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے۔

تحقیق: (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شھر رمضان رقم: 1305)

علامہ الشیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔

اس روایت کے متعلق علامہ البانی فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی سند کا علم نہیں ہو سکا البتہ اس کے متعلق غالب گمان یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے اس کی سند میں نضر بن کثیر سخت ضعیف ہے۔

3۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے پھر مشرک (اور مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ 1395)

تحقیق:

قال الشیخ محدث زبیر علی زئی: اسنادہ ضعیف

یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ولید بن مسلم مدلس، عبداللہ بن لھیہ راوی ضعیف، جبکہ ضحاک بن ایمن، زبیر بن سلیم اور عبدالرحمن بن عزرب مجہول ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سنن ابن ماجہ مکتبہ دارالسلام

4۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبَ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ

پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی۔

1۔ جمعہ کی رات                   2۔ رجب کی پہلی رات

3۔ شعبان کی پندرھویں رات 4۔ عید الفطر کی رات

5۔ عید الاضحی کی رات

تحقیق:

(ضعیف جامع الصغیر للالبانی: 2852 و سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ: 1452)

شیخ البانی فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت ہے۔

5۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

جب پندرہ 15 شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو بیشک اللہ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں خبردار! کون مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے؟ میں اسے بخش دوں، کون رزق طلب کرنے والا ہے؟ میں اسے رزق دے دوں، کون آزمائش و مصیبت میں مبتلا ہے؟ میں اسے عافیت دے دوں خبردار! فلاں فلاں کون ہے حتی کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔

تحقیق:

سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان: 1388، اسنادہ ضعیف

، محدث العصر علامہ الشیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے کیونکہ اس روایت کی سند میں ابن ابی سرہ کذاب اور ابراہیم بن محمد سخت ضعیف راوی ہے۔

6۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

شَعْبَانُ شَهْرِي، وَ رَمَضَانُ شَهْرُ اللہ (ضعیف جدا)

شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا۔

تحقیق:

اس روایت کی سند حسن بن یحیٰ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے علامہ البانی نے اس روایت کو ’’سلسلہ احادیث الضعیفہ‘‘ میں درج کیا ہے۔

7۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

ماہ شعبان کو تمام مہینوں پر ایسے ہی فضیلت ہے جیسے مجھے تمام انبیاء پر۔ (غنیۃ الطالبین جلد 1، صفحہ 680)

تحقیق:

یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے ملاعلی قاری فرماتے ہیں: ’’قال ابن حجر انہ موضوع‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ روایت موضوع ہے۔

اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ نے ’’المقاصد الحسنہ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتہرہ علی الالسنہ‘‘ صفحہ 299 میں اور دیگر محدثین نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

8۔ ایک اور من گھڑت روایت میں ہے۔

جس نے نصف شعبان کی شب میں تیرہ رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں تیس بار ’’قل ھواللہ احد‘‘ پڑھی تو ان دس آدمیوں کے بارہ میں جن پر جہنم واجب ہو چکی ہے اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔

تحقیق:

یہ من گھڑت روایت ہے جیسے ملا علی قاری نے ’’موضوعات کبیر‘‘ صفحہ 165 میں ذکر کیا ہے اس قسم کی اور بھی روایات ہیں جن میں سو رکعت نماز اور دیگر انداز کی نمازوں کا ذکر ہے جو تحقیق کرنا چاہے وہ ’’کتاب موضوعات کبیر‘‘ کا مطالعہ کرے۔

اس قسم کی دیگر احادیث جن میں شعبان کی پندرھویں رات المعروت شب برأت عام راتوں کی طرح ایک رات ہے کتاب و سنت میں اس کی نہ کوئی خاص فضیلت بیان ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی خاص حکم ہے مثلاً نوافل یا ذکر اذکار وغیرہ اور جن احادیث میں اس رات کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ بالاتفاق ضعیف اور من گھڑت ہیں۔ ائمہ کرام مثلاً امام شوکانی، ابن الجوزی، ابن حبان، قرطبی، سیوطی، محدث البانی، زبیر علی زئی وغیرھم نے ان روایات کو ناقبل اعتبار قرار دیا ہے۔

بدعات شب برأت

ماہ شعبان کی پندرھویں رات کو بعض کام ایسے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں جیسے حلوے مانڈوں کا خصوصی اہتمام۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس روز مُردوں کی روحیں آتی ہیں حالانکہ یہ عقیدہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ اگر دنیا سے جانے والے اللہ کے نافرمان ہیں تو وہ اللہ کی قیدمیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قید سے نکل کر آہی نہیں سکتے اگر وہ نیک ہیں تو وہ اللہ کے مہمان ہیں اللہ تعالیٰ نے جنت میں ان کے لیے بہترین نعمتیں تیار کر رکھی ہیں اور وہ جنت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیامیں کس طرح آسکتے ہیں؟ یعنی کسی لحاظ سے بھی روحیں دنیا میں نہیں آ سکتیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جنگ احد میں جب دانت مبارک شہید ہوئے تو آپ نے حلوہ شریف تناول فرمایا تھا۔

یہ دلیل بھی غلط ہے۔

یہ کس حدیث میں ہے؟ کہ آپ کے دانت شہید ہوئے تو آپ نے حلوہ تناول فرمایا۔

جنگ احد تو تمام مؤرخین کے نزدیک شوال 3 ھ میں ہوئی نہ کہ شعبان میں اور پھر نصف شعبان کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بالفرض دانتوں کی شہادت پر آپ نے حلوہ تناول فرمایا تھا تو اتباع سنت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جنگ میں جائیں دانت تڑوائیں اور حلوہ تناول فرمائیں۔

بعض کہتے ہیں:

سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ان دنوں ہوئی تھی یہ ان کی نیاز ہے لیکن اس میں بھی وہ پہلے والا اعتراض لازم آتا ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت تو ہوئی ہے جنگ احد 6 شوال میں اور آپ حلوہ پکا رہے ہیں دس ماہ بیش دن بعد پھر اگر یہ شہادت کے باعث نیاز دی جاتی ہے تو ہر شہید کی نیاز دنیا ہو گی اور اسلام میں اس قدر افراد شہید ہوئے ہیں کہ ان کی نیاز کے لیے پاکستان کا بجٹ بھی نا کافی ہوگا اگر ان کے صحابی رسول اور شہید ہونے کی وجہ سے یہ کام کیا جاتا ہے تو جنگ احد میں تو 70 صحابہ شہید ہوتے تھے ان کی نیاز کیوں نہیں دی جاتی۔۔۔۔؟

پھر کہا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا تھے تو چچا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے کسی اعتبار سے بھی کوئی دلیل نہیں بنتی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں:

سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کی نیاز دی جاتی ہے اس لیے کہ انہوں نے جب سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دندان مبارک شہید ہو گئے تو انہوں نے بھی اپنے تمام دانت توڑ دیئے تھے لہذا حلوہ تیار کیا جانا چاہیے۔

ہمیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ تو محبت کا دعویٰ کریں دانت توڑ کر اور ہم حلوہ کھا کر۔

اب جب اس بات کا حوالہ طلب کیا جاتا ہے کہ بتاؤ کس حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کوئی مستند دلیل پیش کرو؟ تو یہ حضرات سکتے ہیں آ جاتے ہیں۔

قارئین کرام! ان لوگوں کے یہ وہ الٹے سیدھے دلائل ہیں جو شب برأت کے حلوے کے جواز میں گھڑے ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی اس حلوے کا ادنیٰ سا اشارہ تک نہیں ملتا۔

آتش بازی

شب برأت کی مروجہ بدعات میں سے نہایت بری، خطرناک اور غیر معقول بدعت آتش بازی ہے جس میں شرلیاں پٹاخے، فائرنگ اور چراغان وغیرہ سب شامل ہیں شعبان کی پندرھویں رات آتش بازی کا کھیل نہ صرف گناہ ہے بلکہ اس کی دنیوی تباہ کاریاں بھی مشاہدے کی بات ہے مثلاً شب برأت میں بچوں کو آتش بازی کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں جو بچپن میں ہی انہیں احکام الٰہیہ کی نافرمانی کی تعلیم اور بے ہودہ رسوم کا خوگر بنانا ہے۔

اپنی، اپنے بچوں اور دوسرے لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے ہر سال اس قسم کے صدہا واقعات پیش آتے ہیں۔

یہ آتش بازی ہندوں کی رسم دیوالی اور مجوسیوں کی آتش پرستی سے مشابہ بھی ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔

بہرحال آتش بازی انتہائی قبیح بدعت ہے جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس کا مرتکب نہ صرف اپنا دین برباد کرتا ہے بلکہ دنیا بھی تباہ کرتا ہے۔

شریعت محمدیہ کے ساتھ کھیل تماشا کرنے والے جس شخص نے یہ بدعت ایجاد کی وہ مجوسی مذہب کی رغبت رکھتا تھا کیونکہ آگ مجوسیوں کا معبود اور دیوتا ہے یہ بدعت سب سے پہلے برامکہ کے زمانے میں ایجاد ہوئی۔

قارئین کرام! ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ کو آتش بازی کرنا، حلوہ پوری وغیرہ پکا کر ایصال کرنا صرف خاص اس دن روزہ رکھنا خاص نصف شعبان کو قبرستان جانا خاص اس رات نفلی نماز کا اہتمام کرنا وغیرہ یہ سب بندوں کی ایجاد کردہ چیزیں ہیں جن کا ثبوت شریعت مطہرہ میں نہیں ہے ہر مسلمان کو ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیںکوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھائیں کسے راہر و منزل ہی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے