بسم اللہ والحمدللہ والصّلٰوۃ والسلام علٰی رسول اللہ وعلی اٰلہ وصحبہ وأزواجہ ومن والاہ وبعد !

ماہ ِرمضان کی فضیلت

انتہائی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں ایک مرتبہ یہ ماہِ مبارک نصیب ہو جائے، چہ جائے کہ وہ لوگ جنہیں بار بار ماہِ رحمت نصیب ہو ۔ جی ہاں! اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات میں یہ ماہِ مبارک بہت بڑا انعام و احسان ہے۔ کیونکہ:

اس ماہ کو خود رسول اکرم ﷺ نےبا برکت قرار دیا، اس ماہ میں کتاب ِہدایت قرآن کریم کو نازل کیا گیا، اس میں جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اس میں اس ملعون شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے جو دنیا میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی برائی کی وجہ و سبب ہے، اور اس ماہِ مبارک میں روزانہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے، اس میں روزہ و قیام کے مفہوم و ضابطوں کو سمجھتے ہوئے عبادت کرنے والے کے سابقہ تمام صغیرہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہےجس کا مقابلہ ہزار مہینےبھی نہ کر سکیں، ایسا مبارک مہینہ کہ اس میں آنے والی’’ لیلۃ القدر ‘‘سے جو محروم کر دیا گیا، اس سے بڑا محروم ہی کوئی نہیں۔

ماہِ رمضان ایک مبارک مہینہ، تلاوتِ قرآن کریم کا مہینہ، عبادات و ریاضتوں کا مہینہ، جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا مہینہ ،رحمتوں برکتوں اور مغفرت کا مہینہ، صبرو برداشت کا مہینہ، فراخی رزق کا مہینہ، بھائی چارگی اور ایک دوسرے سے خیر خواہی کرنے کا مہینہ، صدقات و خیرات کا مہینہ، اپنے آپ کو سدھارنے اور سنوارنے اور تربیت کا مہینہ ہے۔

مذکورہ فضائل مندرجہ ذیل احادیثِ رسول ﷺ میں بیان کیے گئے ہیں:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ماہِ رمضان کی آمد پر فرماتے: یقیناً تمہارے پاس مبارک مہینہ آیاہے ، جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں۔ جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، شیطان کو جکڑ کر قید کر دیا جاتا ہے، اور اس ماہِ مبارک میں ایک رات ایسی عظمت والی ہے کہ وہ ایک اکیلی رات ہی ایک ہزار مہینوں سے بہتر اور شرف و عظمت والی ہے، اور پھر فرمایا کہ: جو اس رات کی بھلائی سے محروم ہو گیا حقیقت میں وہی محروم ہے۔[1]

اسی طرح رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ پکار پکار کے یہ کہتا ہے کہ اے خیر و بھلائی چاہنے والے خوش ہو جا (کہ خوشی کا مہینہ ، خیر و بھلائی کا مہینہ، برکات اور رحمتوں کا مہینہ آگیا ہے) اور اے شر و برائی کے چاہنے والے اب تو رک جا (اور برائی چھوڑ دے)۔[2]

اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے: ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ بشرطیکہ دونوں رمضانوں کے درمیان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ [3] اسی طرح فرمایا: کہ جوشخص اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے، اور اس رمضان کے مہینہ کی حدود کو پہچان کر ان کی حفاظت کرے ،اور جن چیزوں سے اس ماہِ مبارک میں خیال رکھنا چاہیے ان کا عملاًخیال رکھے، تو اس کے سابقہ تمام (صغیرہ) گناہوں کو بخش دیا جائے گا[4]

اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ (اس ماہ مبارک میں) ہر رات اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔[5]

اسی طرح آپ ﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا، اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر میں نے یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں ﷺ ، اور میں (دن میں) پانچوں نمازوں کو ادا کروں، زکوٰة ادا کروں اورماہِ رمضان کےروزے رکھوں، اور اس ماہ کا قیام کروں (یعنی تراویح و تہجد پڑہوں)تو میں کن لوگوں میں شمار ہوں گا؟ تو آپ ﷺ نےفرمایا کہ (تمہارا شمار) صدّیقین (سچوں) اور شہدا میں ہوگا۔ [6]

اسی طرح مسند حاکم کی صحیح روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ بد دعا فرمائی کہ اس شخص کے لیے ہلاکت و بربادی ہو جو رمضان المبارک کو پا لے اور اپنے گناہوں ، بد اعمالیوں پر (پشیمان و شرمندہ ہو کر اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ رب کے حضور خلوصِ دل سے معافی مانگ کر) اپنی بخشش نہ کرا سکا۔

اس ماہ کے شرف کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ماہ ِمبارک مذکورہ بد نصیبی و بد بختی سے نجات کا موقع ہے۔ یہ مغفرت و بخشش اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔

مذکورہ تمام روایات کو اپنے سامنے رکھیں اور سوچیں کہ کیا وہ شخص خوش نصیب نہیں جسے ایسا عظمتوں، رحمتوں، برکتوں والا مبارک مہینہ نصیب ہوا ؟؟

واقعی خوشی نصیب ہے وہ شخص جو اس مہینہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکات کو حاصل کر سکے اور سب سے بد بخت ، بد نصیب اور نا مراد ہے وہ جو اس ماہِ مبارک کو پا لینے کے باوجود اس کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے محروم رہا۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے سب سے عظیم فرشتے سیدنا جبریل علیہ السلام نے بد دعا کی، اور اس کائنات میں مخلوقات میں سب سے افضل محمد ﷺ نے آمین کہی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان خوش نصیبوں میں سے بنا دے جن کے لیے یہ مبارک مہینہ رحمت، مغفرت، برکت ، جنت اور رب کی رضا کے حصول کا پیغام لایا ہے۔

ماہِ رمضان کی ابتدا

ماہِ رمضان کی آمد کا علم 3 طریقوں میں سے کسی بھی طریقے سے کیا جا سکتا ہے:

۱۔ رمضان کا چاند دیکھ کر ۔

جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: (صوموا لرؤیتہ) [7] کہ رمضان کے روزے اس کا چاند دیکھ کر شروع کرو۔ اس طرح جو شخص رمضان کا از خود چاند دیکھ لے تو اس پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔

۲۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی با اعتماد ، عادل شخص کے چاند دیکھنے کی گواہی پر اعتماد کرتے ہوئے ماہ رمضان کے روزہ شروع کیے جائیں۔

جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا عمل تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ چاند دیکھنے لگے، میں بھی دیکھنے لگا اور مجھے چاند نظر آ گیا تو میں نے رسول اللہﷺ کو خبر دی تو (اس پر اعتماد کرتے ہوئے ) آپﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ کا حکم دیا[8]۔ اب یہ انتہائی قابل ِفہم بات ہے کہ آپ نے صرف سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے چاند دیکھنے اور ان کی گواہی پر اعتماد کرتے ہوئے روزہ شروع کیا اور تمام مسلمانوں کو روزہ کا حکم دیا۔ اس صحیح روایت سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں:

ا) روزہ رکھنے کے لیے خود چاند دیکھنا ضروری نہیں بلکہ کسی عادل، با اعتماد شخص کے چاند دیکھنے کی گواہی کا اعتبار کرتے ہوئے رمضان کے روزے شروع کیے جا سکتے ہیں اور وہ لوگ انتہائی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہیں جو اس وقت تک روزہ نہیں رکھتے جب تک کہ خود چاند نہ دیکھ لیں، اور کسی مسلم، ثقہ، عادل شخص کی گواہی کو کافی نہیں سمجھتے۔

ب ) رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے اجتماعی مسئلہ میں ایک ثقہ اور عادل شخص کی گواہی پر اعتماد کیا جو خبر واحد (یعنی ایک شخص کی خبر و روایت) کی حجیت، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی بیّن اور صریح دلیل ہے تو جو لوگ حدیثِ مقبول کی تمام شروط پوری ہو جانے کے بعد بھی رائے و قیاس کے مخالف ہونے یا کسی اور وجہ کے باعث صرف اس وجہ سے خبر واحد کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ اسے روایت کرنے والا ایک شخص ہے جبکہ وہ راوی ثقہ بھی ہو تو انکا یہ عمل انتہائی گمراہیت پر مبنی ہے۔

ج) اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ رمضان کا چاند دیکھنے پرصرف ایک عادل اور ثقہ شخص کی گواہی کافی ہے۔ یہی قول و فتوی امام شافعی ، امام احمد، امام نووی ، ابن مبارک و دیگر اہل علم کا ہے۔

۳۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر 29 کا چاند نظر نہ آئے تو ماہ شعبان کے 30دن مکمل کیے جائیں۔

جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے : اگر تمہارے اور چاند کے درمیان بادل آ جائیں (یعنی مطلع صاف نہ ہو تو)شعبان کے ۳۰ دن مکمل کرو[9]۔ اور جیسا کہ صحیح بخاری کی روا یت کے الفاظ ہیں (فاکملوا شعبان ثلاثین) کہ شعبان کے ۳۰ دن مکمل کرو۔ اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں (فعدوا ثلاثین) ۔

اب سوال یہ ہے کہ ۲۹ ویں شعبان کا چاند مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آ سکے تو اگلا دن ۳۰ شعبان شمار کیا جائے گایا یہ کہ رمضان شمار کرتے ہوئے روزہ رکھا جائے؟؟

(اس دن کو عربی میں ’’یوم الشک‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے)

اس میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح یہی ہے کہ ’’یوم الشک ‘‘ یعنی شک والے دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔

جس کی دلیل سنن ابی داؤد کی یہ روایت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے شک والے دن میں روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ (آپ ﷺ کی کنیت ہے)کی نا فرمانی کی۔ یہی قول جمہور اہل علم کا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پر تھا اور مذکورہ روایات بھی اس مسئلہ میں انتہائی واضح ہیں۔

رمضان المبارک میں کرنے والے کام

ویسے تو ماہِ رمضان مکمل عبادات کا سیزن ہےجس میں جتنے خیر و بھلائی کے کام کیےجائیں کم ہیں مگر چند عبادات ایسی ہیں جنہیں انتہائی انہماک ،توجہ، شوق اور بڑھ چڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں سرِ فہرست: قرآن مجیدکی تلاوت کرنا، اسے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنا اورسننا، ماہ ِ مبارک کے روزہ رکھنا، رات کو قیام و تراویح کا اہتمام کرنا، خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا، رمضان کے آخری عشرہ میں بھرپور عبادات کا اہتمام کرنااورطاق راتوں میں خصوصی اہتمام کرنا، لیلۃ القدر کو تلاش کرنا، اعتکاف کرنا، زکاۃ ادا کرنا، صدقۃ الفطر ادا کرنا، اورایسی دینی محافل میں کثرت کے ساتھ شریک ہونا جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاحی و تربیتی دروس منعقد کیے جاتے ہیں،اور روزے کے منافی تمام غیر شرعی و غیر اخلاقی امور سے دور رہنا۔

روزہ کی تعریف

روزہ کو عربی زبان میں ’’الصوم یا الصیام ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا معنی ہے

’’الإمساک مطلقا من الطعام والشراب والکلام والنکاح والسیر ونحوہا ‘‘

یعنی لغوی اعتبار سے ’’ الصّوم یا الصّیام‘‘ سے مراد کسی بھی چیز سے مطلقاًبالکل ہی رک جانا ہے۔ یعنی اپنے آپکو کھانے پینے سے،بات چیت سے ،نکاح سے اور چلنے پھرنے سے روکنا، جیسا کہ قرآن کریم نے سیدنا مریم علیہا السلام کا فرمان نقل کیا:

فَكُلِي وَاشْرَ‌بِي وَقَرِّ‌ي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَ‌يِنَّ مِنَ الْبَشَرِ‌ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْ‌تُ لِلرَّ‌حْمَـٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا(مریم:۲۶)

’’ پس کھاؤ، پیو اور اپنی آنکھ ٹھنڈی کرو۔ پھر اگر کوئی آدمی تمہیں دیکھے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے لہذا آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی‘‘

اسی طرح روزے دار کو عربی میں “صائم ” کہا جاتاہے۔

شرعی اصطلا ح میں:

عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے، ازوداجی تعلقات اور دیگر مفطرات یعنی روزہ توڑنے والی چیزوں سے اپنےآپ کو روکے رکھنا۔

(حنابلہ اور حنفیہ کے یہاں روزہ کی تعریف میں ’’ نیت ‘‘ کی قید نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہےکہ نیت روزہ کی شرط ہے کیونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیت ہی پر قائم ہے)

روزہ کا حکم اور فرضیت

قرآن کریم ، احادیث صحیحہ اورامت اسلامیہ کے اجماع و اتفاق سے یہ بات ثابت ہے کہ رمضان المبارک کے مکمل مہینے کے روزے فرض ہیں۔ اور ماہ ِرمضان کا روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ جس کی فرضیت کا انکاری کافر، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے الایہ کہ وہ ( نو مسلم ہو یادار الحرب میں پروان چڑھا ہو،یا دنیا کے کسی ایسے مقام پر رہتا ہو جہاں اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو جسکی وجہ سے وہ ) روزے کی فرضیت سے نا آشنا ہو۔

اسی طرح ماہِ رمضان المبارک کا روزہ با لاتفاق شعبان سن 2 ہجری میں فرض ہوا۔

روزے کی فرضیت کے دلائل:

قرآن کریم:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

شَهْرُ‌رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌فَلْيَصُمْهُ   (البقرة: 185)

’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ‘‘

احادیث مبارکہ:

صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمّد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنااور اگراستطاعت ہوتو حجِ بیت اللہ کرنا ‘‘۔

اسی طرح صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہےجس میں ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اکرم ﷺ سے سوالات کرتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر و روزہ فرض کیا ہے اس کے بارے میں مجھے بتائے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’شہر رمضان ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ماہ ِرمضان کے روزے فرض کیے ہیں، جبکہ اس ماہ کے علاوہ تم نفلی روزہ بھی رکھ سکتے ہو۔

اوررسول اکرم ﷺ روزہ فرض ہونے کے بعد9 سال تک ہر سال ماہِ رمضان کا روزہ رکھتے رہے۔

اجماع:

امت مسلمہ کا ہر دور میں اس بات پر اجماع رہا ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں اور مسلمانوں میں سے کسی نے اسکی فرضیت کا انکار نہیں کیا۔

یومیہ روزے کی ابتداء

یومیہ روزے کا وقت طلوعِ فجر ثانی سے لے کر غروب ِآفتاب تک کا ہے۔ طلوع ِفجر ثانی سے مراد فجر سے پہلے افق پر ظاہر ہونے والی سفیدی ہے۔ قرآن کریم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

سو اب تم ان سے مباشرت کر سکتے ہو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اسے طلب کرو۔ اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری، کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو۔پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔ (البقرة: 187)

مذکورہ آیت میں’’ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ ‘‘ یعنی ’’ سفید دھاگے ‘‘سے مراد:دن کی روشنی اور مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ‘‘ یعنی ’’کالے دھاگے‘‘ سے مراد رات کا اندھیرا ہے۔ اور آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ روزہ کا وقت دن ہےاور کھانے پینے ، میاں بیوی کے تعلقات وغیرہ کا وقت رات ہے۔ ’’الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‌ ’’ کہہ کر روزہ کا ابتدائی وقت اور (ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ) کہہ کر انتہائی وقت بیان کیا گیا۔

روزہ کی نیت

ہر نیک عمل کی قبولیت اور اسکے اجر و ثواب کا دار و مدار ” نیت ” پر قائم ہے۔

جیساکہ صحیح بخاری میں رسولِ اکرم کا فرمان ہے: انما الاعمال بالنّیات یقیناً اعمال کا دار ومدار نیت پر قائم ہے۔

مسائل ِ نیت:

نیت کسے کہتے ہیں: نیت کسی بھی کام کا دل میں عزم و ارادہ کانام ہے۔

فرض روزہ کی نیت: ہرواجب روزہ میں نیت کرنا ضروری ہے، جیسے رمضان کے روزے، قضاء و کفارے کے روزے وغیرہ ۔

نیت کا وقت: فرض روزہ کی نیت طلوع ِفجر سے پہلے کرنا ضروری ہے اگرچہ ایک منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ رسول ِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے :جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہیں کی اسکا روزہ نہیں ۔[10] جبکہ بہتر یہی ہے کہ رات سونے سے پہلے روزہ کی نیت (ارادہ) کرکے سوئے۔

تجدید ِنیت: کیا رمضان المبارک میں روزانہ ہر روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے؟

اس مسئلہ میں راجح بات یہی ہے کہ اگر اس نے رمضان کے شروع میں ہی مکمل مہینہ روزہ رکھنے کی نیت کرلی تو وہ اسکے لیے کافی ہے،البتہ اگر درمیان میں کسی بھی وجہ سے کوئی روزہ چھوٹ جاتا ہے تو اگلے روزہ کی دوبارہ نیت کرنا ضروری ہے۔جیسے حائضہ ، حاملہ، دودھ پلانے والی خواتین اور بیمار و مسافر وغیرہ اگررمضان کاکوئی روزہ چھوڑدیں تو دوبارہ روزہ رکھنےکے لیے فجر سے پہلے نیت کریں گے۔

نفلی روزہ کی نیت: البتہ عام نفلی روزہ کی نیت رات سے کرنا ضروری نہیں وہ اگلے روز زوال سے پہلے کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے[11]۔ہاں اگر خاص نفلی روزہ ہو جیسے : عرفہ وعاشوراء وغیرہ کا تو اسکے لیے رات ہی سے نیت کرنا بہتر ہے۔

نیت کے الفاظ : جہاں تک اسکا زبان والفاظ سے اظہار کرنے کا تعلق ہے تو اعمال ِ شرعیہ میں سوائے ان اعمال کے کہ جن میں رسولِ اکرم سے زبان و الفاظ سے نیت کرنا ثابت ہے (جیسے : حج وعمرہ کی نیت ) بقیہ اعمال میں زبان و الفاظ سے نیت کرنا “بدعت ” ہے ،کیونکہ اگر تمام اعمال میں زبان والفاظ سے نیت کرنا جائز ہوتا تو اللہ کے پیغمبر ﷺ سے کم ازکم ایک مرتبہ اسکا ثبوت ضرور ہوتا ، تو جس عمل کا ثبوت اللہ کے نبی ﷺ سے ایک مرتبہ بھی نہیں وہ عمل جائز وصحیح کیسے ہوسکتا ہے؟؟

اسکے علاوہ “روزہ کی نیت”کے حوالے سے جو الفاظ آج لوگوں کی زبانوں پر عام ہیں جیسے : وبصوم غد نویت من شہر رمضان وغیرہ یہ اور اس قسم کے دیگر الفاظ مختلف روایات میں موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو من گھڑت ہیں یا انتہائی ضعیف۔

روزہ کی فضیلت ، فوائد اور مقاصد

روزہ جسمانی عبادات میں سے اہم ترین عبادت ہےجسکی فضیلت ، فوائد اور مقاصد درج ذیل ہیں:

روزہ کی بنیادی فضیلت اورمقصد’’ حصولِ تقویٰ ‘‘ :

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب فرما کر جو حکم سب سے پہلے ارشاد فرمایا وہ عبادت کا ہے’’صرف اللہ معبودِ برحق ہی کی عبادت ‘‘ کا اور اس کا جو عظیم فائدہ و مقصد بیان کیا ہے وہ تقویٰ کا حصول ہے۔ یہ فائدہ و مقصد کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رب تعالیٰ کے سب سے پہلے اور سب سے اہم حکم کا بنیادی فائدہ و مقصد ہے، اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے عبادات میں اہم عبادت’’روزہ‘‘ کا بیان فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

تقویٰ کی تعریف:

تقویٰ کی تعریف میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ: تقویٰ ایسا بہترین لباس ہے جسے اپنا کر انسان اپنے تمام ظاہری و باطنی عیوب ختم کر سکتا ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’تقویٰ کی تعریف‘‘ میں سب سے بہترین قول جناب طلحہ بن حبیب رحمہ اللہ کا ہے۔ ان سے جب تقویٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ‘‘تقویٰ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ نور اور روشنی کی بنیاد پر اس کی اطاعت کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ نور و روشنی کی بنیاد پر اس کی نا فرمانی سے اجتناب کریں اور اس پر اللہ کے عذاب سے ڈریں ۔

بعض اہل علم نے اس تعریف کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ نور اور روشنی سے مراد اس کے احکامات ،اوامر و نواھی کا علم اور نیک کاموں پر اس کی طرف سے انعام کے وعدوں اور برے کاموں پر اس کی طرف سے عذاب کی وعیدوں کی پہچان ہے تاکہ بندہ جو بھی عمل کرے اس کا وہ عمل کرنا اور جن امور سے وہ اجتناب کرے اس کا ان امور سے دور رہناعلم و نور کی بنیاد پر ہو، اللہ کی شریعت کے مطابق ہو، اور اس کی ہر اطاعت اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تقویٰ سے بہترین لباس کوئی نہیں، تقویٰ ایسی کیفیت کا نام ہے کہ بندہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کا وہ ڈر اور خوف محسوس کرے جو اسے فرائض و واجبات کے چھوڑنے اور معاصی و جرائم کرنے سے روکے، اور اسکے مقابلے میں اسے واجبات شرعیہ کی ادائگی اور نافرمانی وگناہ کے کام ترک کرنےپر مجبور کرے اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے تقویٰ کو “وقایة ” یعنی نا فرمانی سے دور رہنے کا ذریعہ قرار دیا ۔

تقویٰ کے فوائد :

تقویٰ کے بے شمار فوائد ہیں، ان سب کو لکھنا یہاں ممکن نہیں۔ یہاں صرف یاد دہانی کے لیے چند اہم فوائد لکھے جا رہے ہیں تاکہ روزے کے اہم ترین مقصد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے چار اہم ترین فوائد ذکر کیے ہیں، اور غور کیا جائے تو ان چاروں کی ضرورت دنیا کے ہر انسان کو ہوتی ہے۔

۱۔ پہلا فائدہ: تقویٰ مصائب و مشکلات سے نکلنے کا راستہ ہے۔

جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَ‌جًا (الطلاق:2)

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔

یعنی انسان جب کسی مصیبت، غم ، پریشانی و تکلیف میں گرفتار ہو جائے اور نکلنے کا راستہ نظر نہ آ رہا ہو تو ایسے موقع پر ’’متقی و پرہیز گار‘‘ شخص کو اللہ تعالیٰ ان مصائب سے نکلنے کا راستہ مہیا فرماتا ہے۔

۲۔ دوسرا فائدہ: تقویٰ رزق میں زیادتی، فراوانی و برکت کا ذریعہ ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَيَرْ‌زُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3)

اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو۔

یعنی جب انسان معاشی مشکلات میں مبتلا ہو، بے روز گار ہو، یا تنگ دست ہو، بالخصوص موجودہ صورتحال میں کہ ہر شخص اس حوالہ سے پریشان ہے۔ غریب ہو یا امیربگڑتی ہوئی معیشت ہمارے معاشرے کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ایسے موقع پر تقویٰ اختیار کرنے والوں سے رب تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ویرزقہ من حیث لا یحستب وہ انہیں ایسی جگہ سے رزق مہیا فرمائے گا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگی۔

۳۔ تیسرا فائدہ: تقویٰ سہولت اور آسانی کے حصول کا ذریعہ ہے۔جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ (الطلاق:4)

یعنی دنیا میں ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات آسان فرما دے، اور یہ بعید نہیں کہ کسی شخص کا مشکل سے مشکل تر معاملہ آسانی سے حل ہو جائے۔ اور یہ نعمت بھی متقی و پرہیز گار آدمی کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔

۴۔ چوتھا فائدہ: تقویٰ مغفرت کے حصول کا ذریعہ ہے۔

جیساکہ رب تعالی کا فرمان ہے:

اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔ (الطلاق:5)

یہ فائدہ بھی اہل ایمان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی اس کائنات میں ایسا نہیں جو گناہوں سے پاک ہو، اور جسے بخشش و مغفرت کی ضرورت نہ ہو، باقی تمام پریشانیاں، تکالیف، دنیا سے رخصت ہوتے ہی ختم ہو جائیں گی، سوائے انسان کے اعمال کے۔ اوراعمال میں برے اعمال انسان کو جہنم میں لے جا سکتے ہیں جبکہ دنیا میں جس نے تقویٰ کوقولاً و عملاً ظاہرا ًو باطناً اختیار کیا ہوگا یہ مبارک عمل دنیا ہی میں اس کے گناہوں اور اعمال سیئہ کی مغفرت کا سبب بن ماجائے گا اور جب وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا تو گناہوں سے دھلا ہوا دامن لیکر پیش ہوگا۔

یہ چندفائدے اس عمل کے ہیں جو روزہ کا بنیادی مقصد ہے گویا کہ اگر کوئی ان فوائد کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ تقویٰ کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو پورا کرے۔ اور تقویٰ کے حصول کے لیے جن امور کو انسان اختیار کرتا ہے ان میں اہم ترین عمل ’’روزہ‘‘ہے۔

اسی طرح تقویٰ کے علاوہ بھی روزہ کے دیگر فوائد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

روزہ اخلاص پیدا کرتا ہے:

اخلاص ایسا مبارک عمل ہے جو ہر عبادت اور ہر نیک کام میں مطلوب ہوتا ہے، جو اعمال کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔کوئی بھی عمل بھلے وہ کتنےہی اسباب و وسائل اختیار کر کے اور کتنی ہی محنت سے کیوں نہ کیا گیا ہو،اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوتا، اور ’’روزہ‘‘ اس اخلاص کو اپنے اندر پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

کیونکہ اخلاص کا معنی یہ ہے کہ ہر نیک عمل صرف ایک اللہ ہی کے لیے کیا جائے جس میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہ ہو بھلے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ اور اس عمل کا مقصد بھی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کی خوشنودی کا حصول ہو، اسی لیے روزہ دار جب روزہ رکھتا ہے تو وہ نا جائز امور کے ساتھ ساتھ ان امور کو بھی چھوڑ دیتا ہے، جو وقتِ روزہ کے علاوہ جائز ہوتے ہیں۔ جیسے کھانا پینا، میاں بیوی کے درمیان تعلقات اور دیگر مفطرات وغیرہ۔ یہ سب امور مومن روزہ دار صرف اپنے رب تعالیٰ کے لیے چھوڑتا ہے جو اس میں مزید اخلاص پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

روزہ کا اجر و ثواب شمار ہی نہیں کیا جاسکتا :

شریعت میں بہت سی عبادتوں کا اجر و ثواب بیان کردیا گیا ہے ، لیکن روزہ وہ عظیم و مبارک عمل ہے کہ اسکا اجرو ثواب رب تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے،حدیثِ قدسی ہیکہ اللہ فرماتا ہے : ابن ِ آدم کا ہر عمل اسکے لیے ہے سوائے “روزہ ” کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکی جزاء دوں گا۔[12]

روزہ صغیرہ و کبیرہ تمام گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ:

ایمان و احتساب (یعنی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے) کے ساتھ رکھا جانے والا روزہ تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کےر وزے فرض کیے ہیں، اور میں نے تمہارے لیے اس ماہ کا قیام مسنون کیا ہے، تو جو اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس ماہ کا روزہ رکھے اور قیام کرے تو گناہوں سے ایسے پاک و صاف ہو جائے گا جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنا ہو۔[13]

روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی :

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: 3 قسم کے لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی، ان میں سے ایک روزہ دار ہے ،جب تک کہ افطاری نہ کرلے۔

روزہ گناہوں اور جہنم کی آگ سے بچنے کا ذریعہ ہے:

روزہ ایک ڈھال ہے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’ جو بندہ بھی کسی دن اللہ کے راستے میں روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن اسے جہنم سے 70 سال کی مسافت کے برابر دور فرما دیتاہے۔[14]

جنت کے دروازوں میں ایک دروازہ صرف “روزہ دار ” کے لیے خاص ہے:

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسکا نام ” ریّان “ہے جس سے قیامت کے دن سوائے روزہ دار کے کوئی داخل نہیں ہوگا۔[15]

روزہ تمام فتنوں ، مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ ہے :

روزہ کے فوائد میں سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنے گھر، مال ، کاروبار اور آس پڑوس کسی بھی حوالے سےکسی بھی مصیبت کا شکار ہو جائے یا کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔ اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے انہیں ادا کرے۔ یہ روزہ کا عمل اسے ان تمام فتنوں اور مصیبتوں سے بتوفیق اللہ نجات دے گا۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: ’’ آدمی کو اس کے اھل و عیال ، اس کے مال اور اس کے آس پڑوس میں جو فتنہ پہنچتا ہے اسے نماز ، روزہ اور صدقہ ختم کر دیتا ہے۔[16]

روزہ انسانی شہوت کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے:

حقیقت یہ ہے کہ انسانی طبیعت ہے کہ اگر پیٹ بھرا ہو تو انسانی خواہشات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ کیونکہ جب جسم کو بھر پور غذا ملتی ہے تو اس میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور اس طاقت کا صحیح مخرج و مصرف نہ ہو تو انسان نا جائز مصارف تلاش کرتا ہے، اور اس طرح انسان گناہ کا شکار ہوتا ہے۔ اور روزہ ہر اعتبار سے بڑھتی ہوئی نفسانی خواہش کو کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور اس کی دلیل: ’’ رسول اکرم ﷺ کا وہ فرمان ہے جس میں آپ نے ان جوانوں کو جو ( وسائل میں کمی یا کسی اور وجہ سے ) شادی نہیں کر سکتے۔ انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا [17] تاکہ روزہ کے ذریعہ وہ اپنی جسمانی طاقت کو کنٹرول کرسکیں اور ناجائز وخلافِ شرع امور میں مبتلا نہ ہوں۔

روزہ نعمتِ الہٰی پر شکراورغربا، فقراء اور محتاجوں کااحساس پیداکرنےکا ذریعہ ہے:

یہ بھی روزہ کے فوائد میں سے اہم ترین فائدہ ہے، کیونکہ جب روزہ دار صبح سے لے کر شام تک خالی پیٹ بھوکا رہتا ہے تو ایک طرف اس میں احساس ِتشکر پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا دیا ہے کہ وہ کبھی غربت و افلاس کی وجہ سے بھوکا نہیں رہتا اس لیے اسے اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔اور اس کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہیے۔ اور دوسری طرف اس کے اندر ان غریبوں ، بیواؤں اور معاشرے کے ان محتاج لوگوں کا احساس پیدا کرتاہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے سال میں کتنے ہی دن بھوکے رہتے اور کتنی ہی راتیں بھوکے سوتے ہیں، اس لیے ہر شخص کی بالعموم اور اہلِ ثروت حضرات کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ا ستطاعت کے مطابق ایسے محتاج لوگوں کے ساتھ ہرطرح سےتعاون کریں۔

روزہ جسمانی صحت کا اہم ذریعہ:

عربی زبان میں ایک محاورہ ہے ’’ المعدة بیت الدّاء والحمیة راٴس الدّواء ‘‘ کہ معدہ بیماریوں کا گھر ہے، جبکہ پرہیز بہترین دواء۔ اس لیے اطبّاء (ڈاکٹرز) کہتے ہیں کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے ‘‘ کھانے سے پہلے بھی کیونکہ بیماری کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ زیادہ کھانا، یا نقصان دہ کھانا ہے اور کھانے کی بعد بھی۔ اسی لیے نہ انسان ایسا کھائے کہ بیمار ہو اور علاج کی نوبت آئے، احتیاط کریں۔ اور اگر سحری و افطاری میں زیادتی سے پرہیز کیا جائے اور اعتدال میں رہا جائے تو سال میں ایک پورا مہینہ دن بھر روزہ رکھنا جسمانی صحت کے لیے بہت مفید رہتا ہے۔

روزہ کی سنتیں اورآداب

روزہ کی سنتیں اور آداب بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں:

سحری کرنا:

روزے کے آداب میں سے سب سے پہلا ادب ’’سحری کرنا ‘‘ ہے۔ یعنی فجر سے پہلے روزہ رکھنے کے لیے کھانا پینا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ: سحری کیا کرو یقیناً سحری میں بڑی برکت ہے[18]۔ اسی طرح مسند احمد کی روایت کے مطابق سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت اور فرشتے دعائے رحمت فرماتے ہیں۔

سحری کے آداب

(ا) سحری میں اعتدال :

سحری میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان اتنا کھائے جس سے وہ بقیہ دن سہارا کرسکے، اورسحری میں اعتدال اس بات کا نام ہے کہ نہ تو انسان بھوکا رہے کہ عبادت کرنا بھی اسکے لیے مشکل ہو جائے اور نہ ہی اتنا پیٹ بھر کر کھا لے کہ بھوک کا احساس ہی ختم ہوجائے کہ جو روزہ کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد ہے۔

(ب) سحری میں تاخیر ( آخری وقت تک سحری کرنا) :

سحری میں تاخیر سے مراد ہے کہ رات کے آخری پہر میں، آخری وقت تک سحری کرنا۔ اور اس کی دلیل صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ: ہم (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نبی مکرم ﷺ کے ساتھ سحری کرتے پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا تھا؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اتنا جتنا کہ ایک آدمی قرآن مجید کی 50آیتیں تلاوت کرلے۔[19]

اب اگر قرآن مجید کی 50 آیتیں آرام سے، تجوید و اطمینان کے ساتھ تلاوت کی جائیں تو اس میں 15یا 20منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔

اسی طرح سیدنا عمر وبن میمون رحمہ اللہ (جو کہ بڑے تابعین میں سے ہیں) فرماتے ہیں کہ: جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے بڑھ کر جلدی افطاری کرنے والے (یعنی وقت پر فوراً بغیر احتیاطی انتظار کیے)اور دیر تک (یعنی آخر تک)سحری کرنے والے تھے۔

آخری وقت تک سحری کرنے میں اہل علم یہ حکمت بیان کرتے ہیں کہ یہ عین فطرت اور انسانی طبیعت کے مطابق ہے۔ کیونکہ بقیہ پورے دن مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا رہوتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ آخری وقت ہی میں سحری کی جائے تاکہ عبادات وغیرہ میں سہارا رہے۔

(ج) سحری میں کھجور کھانا بھی باعث ِ برکت اور غذائیت سے بھرپور ہے۔

(د) سحری کا انتہائی وقت:رات سے لے کر طلوع فجر تک ہے ۔

مسئلہ :

غسل واجب ہوجائے اور سحری کا وقت مختصر ہو تو سحری کھاکر بھی غسل کیا جاسکتا ہے اگرچہ اذان فجر ہی کیوں نہ ہوجائے۔

افطاری کرنا

روزہ کی دوسری اہم سنّت ہے افطاری کرنا۔ افطاری کا وقت روزہ دار کے لیے خوشی کا وقت ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں بھی مذکور ہوا ہے۔اور شریعت ِ مطہرہ میں دیگر امور کی طرح افطاری سے متعلّق بھی مسلمانوں کی راہنمائی کی گئی ہے جسکا علم رکھنا اور عملی اہتمام کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور وہ اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:

افطاری کے آداب

(ا) ترکھجور(رطب) سے روزہ کھولنا۔

(ب) ترکھجور نہ ملنے پر خشک کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولنا۔

(ج) کھجور و چھوارہ نہ ملنے پر پانی سے روزہ کھولنا۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نماز مغرب سے پہلے رطب کھجور سےافطار فرماتے۔ وہ نہ ملنے پر خشک کھجور سے افطار فرماتے اور وہ بھی نہ ملنے پر پانی کے چند گھونٹ نوش فرماتے[20]۔

(د) افطاری سےپہلےدعا کرنا مستحب ہے۔

روزہ افطار کرنے کی دعا:

افطاری سے پہلے دعا کرنا بھی انتہائی پسندیدہ، قابل تعریف اور اجر و ثواب کاباعث ہے، اور افطاری کے وقت ان الفاظ سے دعا کرنی چاہیے:

ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ

پیاس ختم ہوئی اور رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر بھی مل گیا۔[21]

یہ رسول اکرم ﷺ کا معمول تھا اس لیے ہر روزہ دار کو چاہیے کہ اس دعا کو اسکے معنی کے ساتھ یاد کریں۔ اور اسے روزہ کھولنے کے بعد ادا کریں۔

تنبیہ:

جہاں تک ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا تعلق ہے: (اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت) [22]

تو محققین اہلِ علم نےتفصیل کے ساتھ اس پر بحث کی ہے کہ اس کا ثبوت نہ ہی رسول ِاکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے۔ بلکہ یہ اور اس معنی میں جتنی بھی روایات ہیں یا تو مرسل ہیں یا شدید ضعیف ہیں یا موضوع و من گھڑت ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پچھلی روایت (ذھب الظماء) والی سند صحیح بلکہ بقول امام حاکم، امام بخاری و مسلم رحمہم اللہ کی شرط پر ثابت ہے۔

نوٹ: سحری و افطاری کے حوالہ سے ایک انتہائی اہم بات ذہن نشین رہے کہ سحری میں نہ اٹھنا نماز فجر کی وقت پر عدم ادائیگی یا جماعت سے نکل جانے کا باعث بن جاتا ہے اور اسی طرح افطاری کے دوران بعض لوگ کھانے پینے میں اتنا مگن ہو جاتے ہیں کہ نماز مغرب کی فکر ہی نہیں رہتی، یا تو وہ قضا ءہو جاتی ہے یا پھر جماعت چھوٹ جاتی ہے۔ تو نماز کی پابندی کرنا، وقت پر اور مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ ،اس کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ وہ روزہ جو انسان کے لیے واجبات چھوڑنے کا سبب بن جائے سوائے بھوک و پیاس کے کچھ فائدہ نہیں دیتا۔

(ہ) افطاری میں جلدی کرنا۔

روزہ کھولنے میں جان بوجھ کر دیر کرنا اگرچہ وہ احتیاط پر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ آج ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے، سائرن یا اذان کی آواز آجاتی ہے اس کے باوجود احتیاط کے نام پر جان بوجھ کر روزہ کھولنے میں تاخیر کی جاتی ہے۔ یہ عمل انتہائی قابل مذمت اور خلاف سنت ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے لیے اولادِ آدم کے سردار اور امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان و عمل کافی نہیں؟؟صحیح بخاری ومسلم میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: وہ لوگ ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے۔

اسی طرح آپ ﷺ اپنے رب سے روایت فرماتے ہیں (یعنی حدیث قدسی ہے) کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مجھے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو افطاری (روزہ کھولنے) میں جلدی کرتا ہے۔[23] اسی طرح صحابہ کرام کے عمل کے حوالے سیدنا عمرو بن میمون (تابعی) کا قول بھی پیچھے گزرچکا ہے۔

مسئلہ : نماز مغرب سے پہلے کھانا تناول کرنا

بہتر یہی ہے کہ روزہ کھولنے کے بعد نمازِ مغرب سے پہلے افطاری کر لے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔ لیکن اگر بھوک شدید ہو جس کی وجہ سے نماز میں عدم اطمینان کا خدشہ ہو تو پہلے کھانا کھالے، اس کے بعد نمازِ مغرب ادا کر لے۔ بشرطیکہ:

(ا) نمازِ مغرب کے قضاء ہونے کا خدشہ نہ ہو۔

(ب)کھانا تیار ہو (ج) کھانا سامنے موجود ہو۔ اور دلیل صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : جب رات کا کھانا سامنے آجائے تو نمازِ مغرب سے پہلے کھانا کھا لو۔

روزہ کے منافی ، غیر شرعی امور

روزہ کا بنیادی مقصد ہی ’’تقوی ‘‘ کا حصول ہے۔ جیساکہ پیچھے تفصیلا ذکر کیا گیاہے، اور روزہ کو شریعت میں گناہوں سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اسی لیے روزہ دار کو تمام زبانی و عملی برائیوں سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ برائیاں اس کے روزہ کو برباد کر سکتی ہیں۔

اور وہ برائیاں مندرجہ ذیل ہیں:

جیسے جھوٹ، غیبت، چغل خوری، فحش گوئی، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا، غرض زبان کے ہر قسم کے غلط استعمال اور اسی طرح اپنی آنکھوں، کانوں اور ہاتھ پاؤں کا غلط استعمال، فحش و خلاف شرع باتیں سننا، گانے اور موسیقی سننا، ڈرامے ، فلمیں دیکھنا، فحش تصویریں دیکھنا، فحش لٹریچر پڑھنا، اپنے اعضاء (زبان ، ہاتھ، پاؤں غیرہ)سےکسی کو نقصان پہچانا،دھوکا دینایا ظلم و زیادتی کرنا وغیرہ وغیرہ۔

کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو (روزہ میں) جھوٹ بولنا نہ چھوڑے اور اس پر عمل نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑنے کی کوئی پرواہ نہیں [24]۔

اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ روزہ صرف کھانے پینے کو چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے:کہ روزہ لغو (بے مقصد اور ناجائز) باتوں سے دور رہنے اور بے حیائی، فحاشی، اور خلاف شرع (تمام) کامون کو (عملاً) چھوڑ دینے کا نام ہے۔ (اور اسی طرح روزہ صبر و برداشت اور تحمل و بردباری اختیار کرنے کا نام ہے۔ کیونکہ فرمایا) کہ اگر (تمہارا روزہ ہو اور) تمہیں کوئی جاہل کہے یا کوئی گالی دے تو (برداشت اور تحمل سے کام لو اور) اس سے کہو کہ میں ر وزہ سے ہوں ، میرا روزہ ہے۔[25] (اور اس کی برائی کا جواب بجائے برائی سے دینے کے اس سے اپنا دامن بچاتے ہوئے دور ہو جاؤ)۔

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزہ سے سوائے بھوک و پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور کتنے ہی راتوں کو عبادت کرنے والے ایسے ہیں جنہیں سوائے راتوں کو جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔[26]

تو جو شخص رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھ کراور قیام کر کے اپنے اندر تبدیلی نہ لا سکا، اپنا ظاہر و باطن نہ سنوار سکا اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی شریعت کا فرمانبردار و اطاعت گزار نہ بنا سکا اور زبانی و عملی تمام برائیوں سے دور رہنا نہ سیکھ سکا تو اس سے بڑا بد نصیب اور بد بخت کوئی نہیں اور شاید جسے روزہ و رمضان نہ بدل سکا شاید ہی کوئی اور عمل اسے بدل سکے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہِ مبارک کو ہماری زندگیوں میں عملی تبدیلیوں کا ذریعہ بنا دے اور اس میں کیے جانے والے تمام نیک کاموں کو قبول فرماتے ہوئے ان سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

رمضان المبارک کے روزے کس پر فرض ہیں ؟

روزہ کی فرضیت کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔اسلام ۲۔ بلوغت اور ۳۔ عقل کا ہونا ۔

۴۔ روزہ رکھنے کی طاقت و قدرت کا ہونا ۔

۵۔حالت ِقیام یعنی ’’حضر‘‘ میں ہونا (حالت سفر میں نہ ہونا)۔

۶۔ روزہ رکھنے سے مانع امور کا نہ ہونا (یعنی وہ وجوہات جو انسان کو روزہ رکھنے سے روکیں انکا نہ ہونا)۔

پہلی شرط : اسلام

چونکہ روزہ ایک اسلامی فريضہ ہے اس لیے اسکی فرضیت اور قبولیت کی بنیاد اسلام ہے ،اسی لیے غیر مسلم کافر پر روزہ فرض نہیں ہے اور اگر وہ روزہ رکھ بھی لے تو قبول نہیں کیا جائگا۔

اور شریعتِ اسلامیہ میں کوئی بھی نیک عمل خواہ اسکا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہواسوقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک کہ اسمیں دو چیزیں نہ ہوں: ۱) اخلاص یعنی وہ عمل صرف اللہ ہی کے لیے اسکی رضا و خوشنودی کی خاطر کیا جائے اسمیں اللہ کے علاوہ کوئی بھی شریک نہ ہو ۲)انبیاء کے امام محمد رسول اللہ ﷺ کی متابعت یعنی وہ عمل ٍصرف اور صرف رسول اللہﷺ کے طریقہ پر ہو۔

دوسری شرط : بلوغت

بلوغت کی پہچان:

بلوغت کی معرفت کی کچھ علامات ہیں جن کے ذریعہ لڑکا یا لڑکی کے بالغ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور وہ علامات لڑکے کے لیے ۳ اور لڑکی کے لیے ۴ ہیں۔

لڑکے کی علامات:

۱۔ زیر ناف بال کاآجانا۔ ۲۔ منی کا شہوت کے ساتھ خارج ہونا۔ ۳۔ مذکورہ دونوں کی عدم موجودگی میں ۱۵ سال کی عمر کا مکمل ہونا۔

لڑکی کی علامات :

مذکورہ ۳ علامات ، ۴۔ حیض کا خون آنا۔

مذکورہ علامات میں سے کوئی بھی علامت ۱۵ سال سے پہلے ظاہر ہو جائے تو اس کے ذریعہ بلوغت حاصل ہو جاتی ہے وگرنہ ۱۵ سال کی عمر مکمل ہو جانے کے بعد بلوغت واقع ہوگی۔

۳۔ تیسری شرط: عقل

اسلام اور بلوغت کے بعد تیسری اہم شرط عقل ہے جسکا فقدان روزہ کی فرضیت کو ساقط کردیتا ہے جسکی مزید تفصیل آگے “جنون” کے عنوان کے تحت آرہی ہے۔

۴۔ چوتھی شرط: روزہ رکھنے کی طاقت و قدرت

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں روزہ کی فرضیت کا ذکر فرمایا ہے وہیں یہ بھی بیان فرمادیاکہ: اللہ تعالی ٰ تمہاری لیے آسانی چاہتا ہےتنگی یا مشقت نہیں۔ اسی لیےروزہ ان لوگوں پر فرض کیا گیاجوجسمانی اعتبار سے روزہ رکھنے کےاہل ہوں اور جن میں صحت کے اعتبار سے روزہ کی اہلیت نہیں انہیں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی گئی ۔وہ کون لوگ ہیں اورکس حالت میں روزہ چھوڑ سکتے ہیں، اور اسکے بدلے میں ان پر کیا عائد ہوتا ہے، مسئلہ مکمل تفصیل کے ساتھ آنے والی سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔

۵۔ پانچویں شرط: حالت قیام ’’حضر‘‘ میں ہونا

(یعنی حالت سفر میں نہ ہونا)

چونکہ روزہ ایک جسمانی عبادت ہے جس میں چند گھنٹوں تک عبادت کی نیت سےبھوکا، پیاسا رہنا پڑتا ہےاس لیے اس کی فرضیت کے لیے جسمانی طاقت اور قدرت کی قید لگائی گئی اور ان لوگوں سے روزہ کی فرضیت ساقط (ختم) کردی گئی جو مریض ہوں یا جسمانی طور پر کمزور ہوں ،جیسے بوڑھے ۔اسی طرح ان لوگوں کو بھی رخصت دی گئی جن کے لیے روزہ باعث ِ مشقّت ہو سکتا ہے جیسے مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین وغیرہ وغیرہ ان سب کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے۔

۶۔ چھٹی شرط: روزہ رکھنے سے مانع امور کا نہ ہونا

( یعنی وہ وجوہات جو انسان کو روزہ رکھنے سے روکیں انکا نہ ہونا )

اور وہ مانع امور ’’حیض و نفاس ‘‘ کے خون ہیں ۔یہ آخری شرط خواتین کے ساتھ خاص ہے ۔

ان تمام شرائط کی تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔

خلاصہ کلام: خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان المبارک کا روزہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو مسلمان ہو، بالغ ہو، صاحبِ عقل ہو، اور روزہ رکھنے کی طاقت و قدرت رکھتا ہو، مقیم ہو ، اور خواتین حالت ِحیض و نفاس میں نہ ہوں۔

وہ لوگ جن پر روزہ فرض نہیں

پیچھے ذکر ہوا کہ کن لوگوں پر روزہ فرض ہے اور روزہ کی فرضیت کی شرائط کیا ہیں، ان شرائط میں سے اگر ایک بھی شرط مفقود ہوتو روزہ کی فرضیت ساقط (ختم)ہو جاتی ہے تو اس طرح وہ لوگ جن پر روزہ فرض نہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1) غیر مسلم ( کافر )

کافر پر روزہ فرض نہیں ہے ، اور اگر وہ روزہ رکھ بھی لے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ان سے ان کے نفقات قبول نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اگر نماز کو آتے ہیں تو ڈھیلے ڈھالے اور اگر کچھ خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔ (التوبة: 54)

یعنی کافروں کا لوگوں کی بھلائی کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنا بھی اللہ تعالی کے یہاں ناقابل ِ قبول ہے،جبکہ اس عمل کے انفرادی و اجتماعی دونوں فائدے ہیں اور یہ عمل کثیر الفائدہ بھی ہے، لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر سے یہ عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔ توسوچیے جس عمل کے اجتماعی و معاشرتی فائدہ ہوں وہ عمل کافر سے قبول نہیں تو جو عمل و عبادت اس کی ذات کے لیے خاص ہے وہ کیسے قابل ِقبول ہوگا؟؟؟

سویہ اس بات کی دلیل ہے کہ کافر کاشخصی عمل جیساکہ روزہ رکھنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

2) نابالغ

نابالغ شخص پر بھی روزہ فرض نہیں ہے۔ اب نابالغ کون ہے اور بلوغت کی معرفت کیسے حاصل ہوتی ہے اسکا ذکر پیچھے گذر چکا ہے۔

3) بے عقل ( جسکی عقل ہی نہ ہو یا کسی وجہ سے ضایع ہوگئی ہو )

مجنون، بے ہوش اور نائم کے روزے کا شرعی حکم

مسئلہ: مجنون، بے ہوش اور نائم (سوئے ہوئے شخص) کے روزے کا شرعی حکم:

اگر کسی شخص نے روزہ کی نیت کی: پھر یا تو وہ ’’مجنون‘‘ ہوگیا (یعنی اس کی عقل ضائع ہو گئی) یا پھر کسی وجہ سے ’’بے ہوش ‘‘ ہوگیا اور روزہ کھلنے تک ہوش میں نہ آ سکا، یا وہ شخص صبح سے لیکر شام تک مکمل دن ’’سویا‘‘ رہا ان تینوں صورتوں میں مذکورہ اشخاص کے روزہ کا شرعی حکم کیا ہے؟

اسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

جہاں تک، جنون، بے ہوشی اور نیند کا تعلق ہے تو یہ تینوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے مسئلے ہیں۔ لیکن ان کے احکام مختلف ہیں۔

مجنون

مجنون جنون سے ہے اورجنون سے مرادپاگل پن اور اس کے مثل عقل کا ضائع ہو جانا ہے،اور اسکی مختلف صورتیں ہیں۔

اگر کوئی شخص شروع سے آخر تک مکمل ماہِ رمضان جنون کی کیفیت میں رہا اسطرح کہ اسنے ماہِ رمضان پایا ہی نہیں تو اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ اس پر نہ روزہ فرض ہے اور نہ ہی وہ اسکی قضاء ادا کریگا۔

اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں فجر سے پہلے سے لے کر سورج غروب ہونے یعنی مغرب تک جنون کی کیفیت میں رہا، اگرچہ اس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت کی ہو اور جنون کی وجہ سے پورے دن کچھ کھایا پیا بھی نہیں تو بھی اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ کیونکہ ’’مجنون‘‘ عبادت کا اہل و لائق نہیں اور روزہ ایک عبادت ہے۔ اور عبادت کے وجوب اور صحیح (قابل اعتبار ) ہونے کے لیے’’عقل‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح افاقہ ہوجانے کےبعد اس پر متروکہ نماز و روزہ کی قضاء بھی نہیں ہے کیونکہ مجنون مرفوع القلم ہےاور واجبات شرعیہ کی ادائگی سےمستثنیٰ ہے تو جب اس پر کچھ واجب ہی نہیں تو قضا کیسی !

اسی طرح بے عقل اور پاگل پرروزہ فرض نہیں اور نہ ہی وہ روزہ کے بدلےقضاءیاکفارہ ادا کرے گا کیونکہ اس پر روزہ فرض ہی نہیں ہے۔

ہاں اگر کسی شخص کی عقل کسی حادثہ وغیرہ کی وجہ سے متاثر ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا تو ہوش میں آنے کے بعد روزہ کی قضاکرے گا۔

اسی طرح وہ شخص بھی جوخودکوئی نشہ آور چیز کھاکر یا کسی اور طرح بے عقلی کی کیفیت میں چلا جائے وہ بھی اہلِ علم کے راجح قول کے مطابق ٹھیک ہوجانے پر روزہ کی قضاء ادا کرے گا لیکن اگر اس کی عقل ضائع ہو گئی اور وہ پاگل ہو گیا تو اس پر سے روزے ساقط ہوجائیں گے۔

اسی طرح وہ شخص جو جادو یا جنات وغیرہ کے سبب بے عقلی کی کیفیت میں چلا جاے تو جس دن وہ اس حالت میں ہوگا تو روزہ اس پر ساقط (ختم) ہو جائے گا اور اس کی قضا ءبھی نہیںہوگی اور جس دن وہ صحیح ہوگا اس پر روزہ فرض ہوگا۔

نا بالغ اور فاقد العقل یعنی عقل سے خالی شخص پر روزہ فرض نہ ہونے کی دلیل رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے :کہ تین قسم کے لوگ ہیں جو مرفوع القلم ہیں (یعنی وہ مکلّف ہی نہیں ہیں) فرمایا: نابالغ بچہ حتی کہ وہ بالغ ہوجائے، اور سویا ہوا یہاں تک کہ بیدار ہوجائے، اور مجنون جب تک کہ اسکی عقل واپس نہ آجائے۔ [27]

بے ہوش

جہاں تک بے ہوش آدمی کا تعلق ہے تو ایسا شخص جو کسی حادثہ ، بیماری یا کسی بھی وجہ سے ماہِ رمضان میں سحرے کرنے کے بعد بے ہوش ہو جائے اور مکمل دن بے ہوش رہے تواسکا روزہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔ کیونکہ بے ہوشی کی صورت میں انسان کی عقل اس کا ساتھ نہیں دیتی اور ہوش میں آنے تک انسان غیر عاقل ہی شمار ہوگا، اس لیے اس دورانیہ میں اگرچہ اس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو اور صبح روزہ کی نیت بھی کی ہو تب بھی غیر عاقل ہونے کے باعث اس کا روزہ صحیح شمار نہ ہوگا۔ اور اسے اس روزہ کی قضاء ادا کرنی ہوگی۔ کیونکہ وہ مرفوع القلم نہیں بلکہ مکّلف ہے۔ یہی قول و فتوی جمہور اہل علم کا ہے، اور یہی احتیاط بھی ہے۔ واللہ اعلم

النائم

یعنی وہ شخص جو سحری کے بعد، اذانِ فجر سے پہلے سو جائے اور مغرب یعنی سورج غروب ہونے کے بعد بیدار ہو

نائم کا روزہ صحیح ہے، یعنی فرضیت کا ذمہ اس سے بری ہو جائے گا کیونکہ وہ مکلّف ہے اور کوئی اور ایسی وجہ نہیں جو اس کے روزے کو باطل کرے، جیسا کہ پچھلی دونوں صورتوں میں “عقل کا فقدان”اس کے روزے کےصحیح ہونے میں رکاوٹ تھا۔ یہاں بھی اگرچہ حالتِ نوم میں عقل کا ایک حد تک فقدان ہوتا ہے، مگر دونون میں فرق یہ ہے کہ سوتے ہوئے کو اٹھایا جا سکتا ہے اوروہ با اختیار ہے، اٹھائے جانے پر اٹھ سکتا ہے ، جبکہ’’ بے ہوش ‘‘ شخص بے اختیار ہے اسے اٹھایا بھی جائے تو وہ اٹھ نہیں سکتا۔ ہاں سویا ہوا آدمی نماز و دیگر واجبات شرعیہ کے چھوڑنے پر گناہ گار ہوگا۔

4) وہ شخص جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو: (مریض، بوڑھے وغیرہ)

اسی طرح اس شخص پر بھی روزہ فرض نہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت و قدرت نہ رکھتا ہو، اور روزہ رکھنے سے عاجز ہو۔ جیسے مریض اور بوڑھے وغیرہ۔

مریض کا روزہ

جو شخص کسی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو اس کی دو صورتیں ہیں ۔

۱۔ اس کی بیماری عارضی ہو جس کے ختم ہونے کی امید ہو۔

ایسا شخص بیماری ختم ہو جانے کے بعد متروکہ روزوں کی قضا کرے گا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے۔ (البقرة: 185)

بیماری کی کیفیت سے متعلّق تفصیل آگے آرہی ہے۔

۲۔ وہ جسکی بیماری دائمی ہو اوراسکےختم ہونے کی امید نہ ہو،جس کے باعث وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو۔

ایسےشخص کا حکم بوڑھے جیسا ہے جسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

بوڑھے اور ضعیف العمر کا روزہ

اور وہ لوگ جو بڑھاپے کے باعث روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلائیں۔ جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتوی ہے۔آپ نے آیت:

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ   (البقرہ:184)

کی تفسیر میں ان بوڑھے مرد و خواتین کا ذکر کیا ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔[28]

جبکہ اہل علم نے یہ بھی لکھا ہے کہ مذکورہ آیت ظاہراً اس بات پر دلالت نہیں کرتی جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کی ہے۔ کیونکہ آیت(يُطِيقُونَهُ) کا معنی جمہور مفسرین کے یہاں یہی ہے کہ جو روزہ رکھنے پر قادر ہوں وہ فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یعنی ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کو یہ اختیار تھا کہ چاہیں تو وہ روزہ رکھیں یا چاہیں تو ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ جیسا کہ بخاری و مسلم میں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب یہ (مذکورہ) آیت نازل ہوئی تو (مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ )جو شخص روزہ نہ رکھنا چاہے وہ اس کے بدلے مسکین کو کھانا کھلا دے حتی کہ اگلی آیت نازل ہونے پر اس اختیاری حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔[29]

تو اگلی آیت فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌فَلْيَصُمْهُ ۖ (البقرة: 185)

لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔

کے ذریعے اس اختیار کو منسوخ کر دیا گیا اور ان تمام مسلمانوں کو جو ماہِ رمضان کو پالیں اور روزہ رکھنے پر قادر ہوں اس ماہِ مبارک کے روزے رکھنے کا وجوبی (لازمی) طور پر حکم دیا گیا۔ البتہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس آیت سے مذکورہ استدلال ( کہ جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو (دائمی بیماری یا بوڑھاپے کی بناء پر) وہ ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے)۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کی فقاہت ِدین اور تفسیر قرآن سے آپ کی گہری واقفیت کی دلیل ہے کیونکہ آیت ( يُطِيقُونَهُ) کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں بدل بیان کیا جائے۔ البتہ پہلے یہ اختیار عام تھا، جو روزہ رکھ سکتے ہیں ان کے لیے بھی اور جو نہ رکھ سکیں ان کے لیے بھی ۔ اب یہ خاص ہے صرف ان لوگوں کے لیے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور اسی پر آج بھی اہل علم کا فتویٰ ہے۔

کھانا کھلانے کی کیفیت:

روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا، اب کھانا کھلانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے کچھ طریقے اہل علم نے بیان کیے ہیں۔

۱۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ:مہینے کے آخر میں ۲۹ یا ۳۰ بندوں کا کھانا تیار کروائے پھر ۲۹ یا ۳۰ مساکین کو وہ کھانا کھلا دے۔ یہ طریقہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔[30]

۲۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ: روزانہ کے روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔

۳۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ: انہیں تیار پکا ہوا کھانا نہ کھلائے بلکہ کھانے کی مد میں ہر مسکین کو اناج کی صورت میں کھانا ادا کرے، ہرروزے کے بدلے سوا ایک سے ڈیڑھ کلو تک آٹا، چاول، جو، کھجور وغیرہ ادا کرے،اور یاد رہے اناج ادا کرنے کی صورت میں اس کے ساتھ ساتھ سالن کی صورت میں بھی کوئی معقول سالن دینا بہترہےتاکہ وہ مکمل کھانہ شمار ہوجائے۔

نوٹ:

۱۔ مذکورہ تینوں صورتوں میں سے جس کی جو استطاعت ہو کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔

۲۔ کھانے کا معیار ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا انسان خودکھاتا اور اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہے۔

۳۔ مالدار اور اہل ثروت حضرات اگر تیسری صورت اختیار کریں تو بہتر ہے۔ کیونکہ یہ صورت مسکین اور اس کے اہل و عیال کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

۴۔ ماہ ِرمضان شروع ہونے سے پہلے اگر کوئی شعبان یا شعبان کے آخر میں رمضان کے روزوں کافدیہ ادا کرے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کا یہ عمل وقت سے پہلے شمار ہوگا اور وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ماہ رمضان کے روزے شعبان میں ادا کر لے۔

مریض کے لیے روزہ رکھنا بہتر ہے یا چھوڑنا

جہاں تک مریض یعنی بیمار شخص کے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ ہے اس میں کچھ تفصیل ہے۔

مریض کے لیے روزہ رکھنا یا نہ رکھنا اس کی حالت پر مبنی ہے۔اوراسکی ۳ صورتیں ہیں :

ا) بیماری معمولی و خفیف سی ہو۔

جیسے معمولی سا نزلہ ، زکام، سر یا جسم میں ہلکا سا درد وغیرہ تو ایسی صورت میں روزہ ترک کرنا جائز نہیں بلکہ روزہ رکھنا ضروری و لازمی ہوگا۔

ب) ایسی بیماری کہ جس میں روزہ رکھنا تکلیف و مشقت کا باعث ہو لیکن روزہ رکھنے سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

تو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی مسنون و بہتر ہے اور روزہ رکھنا غیر مناسب ہے۔

ج) ایسی بیماری کہ جس میں مریض کے لیے روزہ رکھنا باعث ِنقصان و ضرر ہو ۔

جیسے کینسر ، شوگر ، بلڈپریشر جیسی بڑی بیماریاں ، اسی طرح وہ شخص جو کسی دائمی بیماری میں مبتلا ہو ۔ الغرض ہر وہ بیماری جس میں روزہ رکھنا نقصان کا سبب بن جائے ایسی حالت میں روزہ رکھنا ناجائز و حرام ہے۔

اور اگر اس آخری صورت میں جس میں روزہ رکھنا ناجائز ہے اگر کوئی روزہ رکھ لے ، تو اس صورت میں اہل علم کے نزدیک اس کا روزہ رکھنا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ بلکہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی وجہ سے وہ گناہ گار بھی ہوگا۔ کیونکہ اس حالت میں اس کا روزہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ممنوعہ ایام میں روزہ رکھے ،جیسے ایام عیدین میں روزہ رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

نوٹ: ضرر و نقصان کا ضابطہ کیا ہے اسکی تفصیل آگے آرہی ہے۔

۵) مسافر

اسی طرح وہ شخص جو حالتِ سفر میں ہو یعنی مسافرہو تو اس پر بھی روزہ فرض نہیں ہے۔ اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفرپر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر سکتا ہے۔ ( البقرة: 185)

اور اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ مسافرحالتِ سفر میں روزہ افطار کر سکتا ہے۔

مسافر کا حالتِ سفر میں روزہ رکھنا

اس سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا مسافر حالتِ سفر میں روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟

اور اگر وہ روزہ رکھلے تو اس روزہ کا کیا حکم ہے؟

اولاً :جمہور اہل علم ’’اہل علم کی اکثریت‘‘ کا یہی قول و فتویٰ ہے کہ مسافر کے لیے حالتِ سفر میں روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسے دوران سفر اجازت ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ اور سفر سے واپسی پر متروکہ روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

اورجہاں تک دورانِ سفراسکے روزہ رکھنے کے جائز ہونے کا سوال ہےتو:

مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا مکمل اختیار ہے اور اگر وہ رکھ لیتا ہے تو اسکا روزہ صحیح ہے اور اگر چھوڑتا ہے تو اس کی قضا ادا کرے گا۔

جس کی دلیل رسول اکرم ﷺ کا مسافر سائل کویہ فرمانا ہے۔’’ان شئت فصم وان شئت فافطر‘‘ چاہو تو روزہ رکھ لو اور چاہو تو چھوڑ دو۔ [31]

اسی طرح خود رسول اکرم ﷺ سےاور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی دوران سفرروزہ رکھنا ثابت ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام میں دورانِ سفر: روزہ رکھنےوالے اور چھوڑنے والے دونوں موجود ہوتے اور کوئی کسی پر تنقید و اعتراض نہیں کرتا تھا۔[32]

اسی طرح وہ تمام روایات جو اس معنی میں کتب احادیث میں مذکورہ ہیں سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسافر کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے دونوں کی اجازت ہے۔

مسافر کے لیے روزہ رکھنا بہتر ہے یا چھوڑنا ؟

یہ مسئلہ بھی اہم ہے کہ مسافر کے لیے افضل اور بہتر کیا ہے؟ روزہ رکھنا یا چھوڑنا؟ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رکھنا بہتر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ نہ رکھنا بہتر ہے اور بعض کہتےہیں مسافر کو اختیار ہے چاہے تو رکھ لے اور چاہے تو نہ رکھے، اس کے حق میں دونوں برابر ہیں۔

لیکن راجح قول یہ ہے کہ مسئلہ میں تفصیل ہے۔

اور وہ یہ کہ یہاں بھی 3 صورتیں ہیں ۔

۱۔ روزہ رکھنا یا نہ رکھنا دونوں برابر ہوں ۔

یعنی روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہ پڑے تو ایسی صورت میں روزہ رکھنا ہی بہتر و افضل ہے۔

کیونکہ رسول اکرم ﷺ سے سخت گرمیوں میں دوران سفر روزہ رکھنا ثابت ہے۔[33] اور اس لیے بھی کہ جب روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں برابر ہوں تو وقت پر روزہ رکھنا ہی بہتر ہے،کیونکہ اس سے وقت پر فرض بھی ادا ہوجائگا اور دوسرا یہ کہ رمضان المبارک میں رکھا جانے والا روزہ غیر رمضان کے روزہ سے افضل ہے۔

۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دورانِ سفر روزہ رکھنا مشقت و تکلیف کا سبب ہو ۔

ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر و افضل ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک موقع پر آپ ﷺ صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے اور سب روزہ سے تھے کہ آپ ﷺ کو خبر دی گئی کہ لوگوں پر روزہ رکھنا (دوران سفر) بہت مشکل اور تکلیف کا باعث بن رہا ہے، لیکن لوگ آپ ﷺ کی اقتدا میں روزہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ آپ بھی روزہ سے ہیں۔ سو آپ ﷺ نے سنتے ہی پانی کا پیالہ منگوایا ، اسے اپنی ران سے اوپر اٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں پھر آپ ﷺ نے وہ پانی پی لیا اور لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے تاکہ آپ کی اقتدا کر سکیں۔ پھر آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ ہیں جو ابھی بھی روزے سے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا یہی لوگ نافرمان ہیں۔ یہی لوگ نا فرمان ہیں۔[34]

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر کے لیے اگر روزہ رکھنا مشقت و تکلیف کا باعث ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا اور نہ رکھنا ہی بہتر و افضل ہے اور اگر وہ روزہ رکھ لے اور پھر بعد میں دورانِ سفر مشقت محسوس کرے تو اسے روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ یعنی وقت سے پہلے جب بھی مشقت محسوس کرے تو روزہ توڑ لے اور بعد میں اسکی قضا کرے،یہی مسنون بھی ہے اور یہی افضل و اولیٰ ہے۔

۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اگر روزہ رکھنے میں ضرر و نقصان کا خدشہ ہو۔

تو ایسی صورت میں روزہ رکھنا حرام و ناجائز اور باعثِ گناہ ہے۔ کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔بلاشبہ اللہ تم پر نہایت مہربان ہے۔ (النساء: 29)

آیت میں اگرچہ قتل و ہلاکت کا ذکر ہے لیکن آیت میں قتل و ہلاکت کے ساتھ ساتھ ہر وہ چیز شامل ہے جس میں ضرر یعنی نقصان ہو۔ کیونکہ سیدنا عمرو بن عاص t نے اس آیت سے ضرر و نقصان پر استدلال کیا تھا اور رسول اکرم ﷺنے ان کی تائید فرمائی تھی۔[35]

اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا (جو انتہائی گھبراہٹ و تکلیف میں تھا) اس پر سایہ بھی کیا جا رہا تھا، لوگ اس کے ارد گرد تھے آپ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ’’روزہ ‘‘سےہے (یعنی روزہ میں ہونے کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔[36] یہ فرمان خاص اُس شخص کے لیے ہے جس کیلیےروزہ رکھنا دورانِ سفر باعث مشقت ہو جیسا کہ مذکورہ شخص کی حالت تھی۔

ضرر و نقصان کا ضابطہ:

ضرر و نقصان کی پہچان دو طرح سے کی جا سکتی ہے:

۱۔ ایک ’’حس‘‘ کے ذریعہ۔

یعنی بیمار یا مسافر اپنی کیفیت سے خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر وہ روزہ رکھیں گے تو کیااس کی وجہ سے ان کی بیماری یا سفر کی مشقت میں اضافہ ہو سکتا ہے یا ایسی کمزوری لاحق ہو سکتی ہے جو انہیں ہلاکت میں ڈال دے وغیرہ وغیرہ۔

۲۔ دوسری صورت ہے ’’خبر و معلومات کے ذریعہ ‘‘۔

یعنی کوئی با اعتماد قابل ڈاکٹر یہ بتائے کہ روزہ رکھنے میں ضرر و نقصان واقع ہو سکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس حوالہ سے کسی عام آدمی یا کسی نیم حکیم یا کوئی ایسا ڈاکٹر جو قابل اعتماد نہ ہو اس کا قول معتبر نہیں ہوگا۔

مسلم و غیر مسلم ڈاکٹر:

جہاں تک ڈاکٹر کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے کا تعلق ہے یعنی کیا اس مسئلہ میں کسی غیر مسلم ڈاکٹر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟

اس میں اہل ِعلم کی دو آراء میں سے راجح رائے یہی ہے کہ ڈاکٹر کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔ کیونکہ مسئلہ ھذا میں ڈاکٹر کی رائے کا تعلق میڈیکل کے شعبہ سے ہے اور MEDICALLY کیا نقصان دہ ہے اور کیا نہیں یہ ڈاکٹرز ہی بہتر جانتے ہیں اور کافروں کا قول دنیاوی شعبوں میں چند اہم قیود و شروط کے ساتھ معتبر ہے۔ جس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا عمل ہے ۔ آپ ﷺ نے بعض انتہائی خطرناک اور نازک معاملات میں کافروں پر بھی اعتماد کیا ہے۔ جیسا کہ ہجرت کے موقع پر آپ ﷺ نے بنی الدّیل قبیلہ کے، عبداللہ بن اریقط نامی مشرک کو راستے کی نشاندہی کے لیے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا[37] اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، کیونکہ قریش ِمکہ آپ ﷺ کی تلاش میں تھے، آپ کی جان سخت خطرے میں تھی اورانہوں نے آپ ﷺ کا پتہ بتانے والے کو سو عدد بہترین اونٹنیاں انعام میں دینے کا اعلان کیا تھا۔ ایسے میں کسی بھی شخص پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہ تھاچہ جائکہ کسی کافر پر اعتماد کیا جائے۔لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ایک کافر پر اعتماد کرتے ہوئے اسے راستے کی راہنمائی کے لیے اپنے ساتھ رکھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کافر امین ہو، با اعتماد ہو، اپنے کام میں ماہر ہو، تو اس کی بات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ:

مسئلہ ھذا میں غیر مسلم ڈاکٹر کی بات پر اعتماد کرنے سے پہلے اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ وہ متعصب نہ ہو، یعنی اسلام اور شعائر اسلام کے بارے میں متعصّبانہ رائے نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح اس کے مقابلے میں کوئی ماہر مسلم ڈاکٹر بھی موجود نہ ہو۔ اگر کوئی قابلِ اعتماد ماہر مسلم ڈاکٹر موجود ہو تو اسی کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے اور غیر مسلم ڈاکٹر سے رجوع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے واللہ اعلم۔

دورانِ سفر روزہ توڑنا:

مسئلہ: اگر کوئی شخص روزہ کے دوران سفر پر روانہ ہو تو اس کے لیے روزہ افطار کرنا (روزہ توڑنا ) جائز ہے یا نہیں؟

اس میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے جس میں راجح قول یہی ہے کہ اگر اسے مشقت و تکلیف محسوس ہو تو بہتر ہے کہ وہ روزہ افطار کر لے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ شہر سے باہر آجائے۔ یعنی اگر اس نے سفر شروع کر دیا اور وہ شہر میں ہی ہے تو اس کے لیے روزہ کھولنا جائز نہیں۔

اور اگر روزہ مکمل کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو وہ روزہ مکمل کرے گا اور اس کے لیے روزہ توڑنا مناسب نہیں۔

(6) وہ امور جو روزہ کی فرضیت میں رکاوٹ ہوں

چھٹی صورت: روزہ فر ض نہ ہونے کی وہ ہے’’الخلومن الموانع‘‘۔ یعنی وہ امور جو روزہ فرض ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ دو ہیں ۔

حیض اور نفاس

یہ صورت خواتین کے ساتھ خاص ہے یعنی خواتین پر دورانِ حیض و نفاس روزہ فرض نہیں ، جب تک کہ وہ ان دونوں سے فارغ نہ ہو جائیں۔ دلیل نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: عورت جب حائضہ ہو جائے تو وہ نماز نہیں پرھتی اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔[38]

(ا) اس بات پر اتفاق ہے کوئی اختلاف نہیں کہ ایسی حالت میں عورت پر روزہ واجب نہیں۔

ب) اور اگر وہ رکھ بھی لے تب بھی وہ ادا نہیں ہوگا بلکہ فاسد الاعتبار اور ناقابلِ قبول ہوگا۔

ج) اورجب وہ حیض یا نفاس سے فارغ ہوجائے تو اس پر قضا واجب ہوگی۔[39]

ان تینوں باتوں پراجماع ہے۔

مسئلہ:حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین

حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے بھی ’’ جائز‘‘ ہے کہ وہ روزترک کر سکتی ہیں، اگرچہ وہ دونوں بیمار بھی نہ ہوں ۔کیونکہ حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت مريض اور مسافر كى طرح ہيں۔اور یہ رخصت حمل اور دودھ پلانے کے ابتدائی ،درمیانے، اور آخری سب دنوں کو شامل ہے ،جوکہ انہیں انکی اور انکے بچے کی رعایت کرتے ہوئے دی گئی ہے۔

اسکی دلیل رسولِ اکرم کایہ فرمان ہے کہ:اللہ تعالی نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو روزہ کی رخصت دی ہے۔[40]

لیکن مسئلہ میں کچھ تفصیل بھی ہے:

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا بعض اوقات جائز اورکبھی واجب اورکبھی حرام ہوتا ہے :

جب انہیں روزہ رکھنے میں کوئي مشقت نہ ہو توانکا روزہرکھنا واجب اور ترک کرنا حرام ہے ۔

جب انہیں روزہ رکھنے میں مشقت ہولیکن روزہ رکھنا انہیں نقصان نہ دے توانکے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔

جب روزہ رکھنے کی وجہ سے ان پر یاانکے بچے پر ضرر اورنقصان مرتب ہوتا ہو تو روزہ رکھنا حرام اور چھوڑنا واجب ہے ۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں :

حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت: وہ عورت قوی اورطاقتور اورنشیط ہو روزہ رکھنے کی وجہ سے اسے کوئي مشقت نہ ہواس کےبچے پر کوئي ضرر نہ ہو تواس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے کیونکہ روزہ چھوڑنے کیلئے اس کے پاس کوئي عذر نہیں۔

دوسری حالت : عورت ثقل حمل کی وجہ سے روزے کی متحمل نہ ہو یا پھر کمزوری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ، تواس حالت میں وہ روزہ نہيں رکھے گی اورخاص کر جب اس کے بچے کو ضرر ہو تواس وقت اس کےلیے روزہ ترک کرنا واجب ہے .

روزہ کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے اور کن سے نہیں

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ۳ بنیادی چیزیں ذکر کی ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور وہ ہیں:

جماع (ہمبستری)، کھانا اور پینا۔

یعنی صبح صادق سے شام سورج غروب ہونے تک ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب بھی روزہ کو فاسد (توڑ)کر دیتا ہے۔ اور اس بات پر اہل ِعلم کا اجماع ہے۔ اللہ فرماتا ہے :

سو اب تم ان سے مباشرت کر سکتے ہو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اسے طلب کرو۔ اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری ، کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو۔پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔ (البقرة: 187)

اسی طرح روزہ توڑنے والی چیزوں کے باب میں اہلِ علم نے ایک انتہائی اہم قاعدہ بیان کیا ہے جسکا ہر وقت ذہن میں رہنا ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ:

’’ جن چیزوں کے بارے میں اختلاف ہو کہ ان سے روزہ ٹوٹتا ہے کہ نہیں، اور قرآن و حدیث میں صراحت سے اسکا حکم نہ ملے تو اسوقت تک اس چیز کو روزہ توڑنے والی چیز قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ کوئی واضح دلیل نہ مل جائے ‘‘۔

اس طرح مذکورہ ۳ متفقہ چیزوں کے علاوہ ، زیادہ ترروزہ توڑنے والی اختلافی چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔[41]

اور وہ چیزیں جن سےر وزہ ٹوٹ جاتا ہے دو طرح کی ہیں:

۱۔ وہ کہ جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بدلے روزہ کی قضاء لازم آتی ہے۔

۲۔ وہ کہ جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بدلے روزہ کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں۔

روزہ توڑنے والے وہ امور جن سے صرف قضاء لازم آتی ہے

وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ جان بوجھ کر کھانا اور ۲۔ پینا۔

ہاں اگر بھولے سے یا غلطی سے یا کسی کے انتہائی مجبور کرنے پر کھانے یا پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا[42] اور نہ اس کا قضاء و کفارہ لازم آتا ہے۔

خواہ کسی معقول چیز کو کھایا جائےجیسے عموماً کھانے پینے کی چیزیں یا کسی بھی غیر معقول چیز کو کھایا جائے جنہیں عادةً کھایا یا پیا نہیں جاتا۔ جیسے مٹی، کچے اناج و پھل وغیرہ۔ اسی طرح کاغذ، روئی وغیرہ۔ ان سب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور یہاں کھانے اور پینے سے مراد وہ چیزیں ہیں جنہیں منہ کے ذریعہ معدے میں داخل کیا جائے۔ وہ کھانے کی ہوں یا پینے کی۔ اور وہ فائدہ مند ہوں، جیسے پکا ہوا اناج اور گوشت ، پانی و دودھ وغیرہ۔ یا نقصان دہ جیسے حقہ، شیشہ، تمباکو، گٹکا، مین پوری، نسوار ، سگریٹ و دیگر نشہ آور چیزیں، یا پھر وہ جس میں نفع و نقصان دونوں نہ ہوں۔

اسی طرح اس میں وہ انجکشنز بھی شامل ہیں جو غذا کے طور پر مریض کو دیے جاتے ہیں

اسی طرح وہ دوائی بھی روزہ توڑ دیتی ہے جو ناک کے ذریعہ انسان کے دماغ یاپیٹ میں پہنچ جاتی ہے ، اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے روزہ کی حالت میں دورانِ وضوء ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سے منع فرمایا ہے۔[43] جس کی وجہ یہی ہے کہ کہیں وہ پانی دماغ یا معدہ تک نہ پہنچ جائے۔ اور اس حدیث سے اہل علم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ’’ ہر وہ چیز جو منہ یا ناک کے ذریعہ معدہ تک پہنچے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ‘‘ ہاں اگر وہ ناک ہی میں باقی رہے اور دماغ تک نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

اسی طرح روزہ میں بھاپ (STEAM) لینا بھی روزہ توڑ دیتا ہے۔

اسی طرح وہ دوائی جو آنکھ میں ڈالی جائے، اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، یہی قول راجح ہے کیونکہ اسے لغت یا عرف میں کھانا پینا قرار نہیں دیا جا سکتا اور روزہ ٹوٹنے کی جو علت قرآن میں بیان کی گئی ہے وہ (الاکل والشرب) یعنی کھانا پینا ہے۔

ہاں اگر آنکھ میں ڈالی جانی والی دوا اگر منہ میں پہنچ جائے اور پھر اسے نگل لیا جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ وہ پینے کے حکم میں شمار ہوگا۔ لیکن اگر وہ منہ کے بجائےصرف حلق تک پہنچتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی طرح ’’سرمہ ‘‘ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، اور آنکھوں میں لگائی جانے والے وہ تمام اشیاء جو دوائی یا میک اپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جیسے Eyeliner , Maskara, Kajal, Lenses وغیرہ ان کا استعمال بھی روزہ میں کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر خون کی یا کسی اور چیز کی ڈرپ لگواتا ہے تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح کان میں ڈالی جانے والی دوا یا تیل اگر دماغ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے وگرنہ نہیں ۔ اس لیے اس میں بھی احتیاط کرنا چاہیے۔

اسی طرح ہر وہ چیز جو منہ یا ناک کے علاوہ کسی اور جگہ سے معدہ تک پہنچے راجح قول کے مطابق جب تک وہ کھانے یا پینے یا انکے حکم میں داخل نہ ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اس کے مقابلے میں ہر وہ چیز جو منہ یا ناک کے راستے معدے تک پہنچے وہ کھانے کی ہو یا پینے کی وہ فائدہ منہ ہو یا نقصان وہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح اگر کھانے یا پینے کے طور پر منہ یا ناک کے علاوہ کسی اور مقام سے کوئی چیز معدہ تک پہنچائی جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

مذکورہ تمام روزہ توڑدینے والی صورتوں میں متروکہ روزہ کی قضاء لازم آئے گی۔[44] واللہ اعلم

جسے طلوعِ فجر یا غروبِ شمس میں شک ہو اور وہ کھا پی لے؟

مسئلہ میں تفصیل ہے ، یہاں دو صورتیں ہیں:

طلوع فجر میں شک : اور اس کی پانچ صورتیں ہیں:

۱۔ کہ اسے یقین ہو کہ فجر کا وقت نہیں ہوا۔

جیسا کہ آج کل باقاعدہ گھڑیاں موجود ہیں اور وقت متعین ہو چکا ہے تو گھڑی کے مطابق وقت نہیں ہوا، ایسی حالت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔

۲۔ اسے یقین ہو فجر کا وقت ہوگیا ہے۔

ایسی حالت میں اس کا روزہ اگر وہ کھاتا پیتا رہا تو فاسد ہوگیا۔

۳۔ اسے شک ہو کہ ٹائم ہو اکہ نہیں، لیکن غالب گمان یہ ہو کہ وقت ابھی باقی ہے۔

اس صورت میں اگر وہ کھا پی لیتا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

۴۔ اسے شک ہو اور غالب گمان ہو کہ وقت ختم ہوگیا ہے، لیکن یقین نہ ہو۔

تو وہ کھا پی سکتا ہے کیونکہ وقت کے اعتبار سے یقین پر حکم لگے گا۔ اس صورت میں بھی اس کا روزہ صحیح ہے۔

۵۔ اسے شک ہو اور غالب گمان بھی کچھ نہ ہو کہ وقت ختم ہوگیا یا باقی ہے؟

ایسی صورت میں بھی کھانے پینے پر روزہ صحیح ہے۔

مذکورہ تمام صورتوں کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری ، کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہو جائے تم کھا پی سکتے ہو۔ (البقرة: 187)

یعنی ” جب تک فجر واضح نہ ہو جائے کھاتے اور پیتے رہو ” یہاں وضاحت (یقین )کی قید لگائی گئی ہے جو کہ شک کی ضد ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک وقت ختم ہونے کا یقین نہ ہو جائے طلوع یقین کے ساتھ تو انسان کھا پی سکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔

دوسری صورت: غروب آفتاب (سورج غروب ہونے) میں شک ہو ۔

اور وہ اسی دوران کھایا پی لے تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا، کیونکہ اسی مذکورہ آیت میں فرمانِ باری تعالیٰ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ   (البقرة: 187)

پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔

اس لیے رات تک روزہ مکمل کرنا اور سورج غروب ہونے کا یقین کرنا، افطاری کرنے سے پہلے ضروری ہے۔ کیونکہ اسی صورت میں یقین یہ ہے کہ کھانا اس وقت تک شروع نہ کیا جائے جب تک غروب آفتاب کا یقین نہ ہو ، اس لیے جو اس سے پہلے کچھ کھایا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، اور وہ اس کی قضاء کرے گا۔ ہاں! اگر غروب آفتاب کا غالب گمان ہو اور کھا لیا تو اس کا روزہ صحیح ہے، کیونکہ ایسی صورت میں روزہ ٹوٹنے کا حکم لگانے کے لیے سورج غروب نہ ہونے کا یقین ضروری ہے۔

اور اگر مذکورہ دونوں صورتوں میں غالب گمان کی بنیاد پر طلوع فجر یا غروب آفتاب میں شک کے باوجود کھا پی لیا اور بعد میں پتہ چلا کہ اس نے فجر کے وقت کے بعد یا غروب آفتاب سے پہلے کھایا ہے تو اہل علم کے دو اقوال میں سے راجح یہ ہے کہ اس کا روزہ صحیح ہے اور اس پر کوئی قضا نہیں۔ کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے

اور کوئی بات تم بھول چوک کی بنا پر کہہ دو تو اس میں تم پر کوئی گرفت نہیں، مگر جو دل کے ارادہ سے کہو (اس پر ضرورگرفت ہوگی)اللہ تعالیٰ یقینا معاف کرنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔ (الأحزاب: 5﴾)

اس طرح فرمان رسول ﷺ ہے: کہ میری امت پر سے اللہ نے غلطی و خطا کو معاف کر دیا ہے[45] ۔ اسی طرح مصنف عبد الرزّاق میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بادلوں کے باعث سورج کا غروب ہونا صحابا سے ٕمخفی رہا اور انہوں نے روزہ افطار کر لیا پھربعد میں انہیں حقیقت کا پتہ چلا تو لوگوں پہ بڑا گراں گزرا اور انہوں نےقضا کرنا چاہی تو سیدنا عمر نے فرمایا کہ ہم نے گناہ کی غرض سے (جان بوجھ کر) ایسا نہیں کیا، اور انہیں قضاء سے منع کر دیا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں :

۱۔ بادلوں کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو تو روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔

ب۔ اگر روزہ کھولنے کے بعد غلطی کا پتہ چلے تو اس کی قضاء نہیں۔

اور ان دونوں کی دلیل صحابہ کا عمل ہے جو دین کے زیادہ عالم اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سب سے بڑھ کر اطاعت گزار تھے۔

۳۔ جان بوجھ کر قئے (الٹی) کرنا :

قئے( الٹی) کی دو صورتیں ہیں:

۱۔ جان بوجھ کر، خواہ وہ کسی بھی طرح کی جائے۔ انگلی حلق میں ڈال کر، یا جان بوجھ کر ایسا دیکھنا، سننا، سونگھنا، یا پیٹ کو اتنا دبانا کہ جس سے قئے آ سکے اس طرح اگر قئے آجائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کی قضاء لازم آتی ہے۔ اور اگر کوئی جان بوجھ کر قئے کرنا چاہے اور قئے نہ آئے تو روزہ نہیں ٹوٹتا جب تک کہ قئے نہ آجائے۔

۲۔ ہاں اگر غلطی سے نہ چاہتے ہوئے کسی کوقئے آجائے: تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جسے خود بخود قئے آجائے اس پر کوئی قضاء نہیں (اور اس کا روزہ بھی نہیں ٹوٹتا) اور جو جان بوجھ کر قئے کر لے اسے چاہیے کہ وہ اس روزے کی قضاء کرے (کیونکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا)[46] اور امام خطابی رحمہ اللہ بھی اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق بھی نقل کرتے ہیں۔

۴۔ حیض یا نفاس کا خون آجانا:

اس طرح حیض و نفاس کا خون آجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً خاتون نے صبح روزہ رکھا اور دوپہر یا شام افطاری سے پہلے اگرچہ کچھ لحظہ پہلے ہی کیوں نہ ہواسے پیریڈ (ایام ماھواری) شروع ہو گئے تو اس کا وہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح جس عورت کو نفاس کا خون (جو کہ ولادت کے بعد آتا ہے )جاری ہو۔ اس کا بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور جب تک مذکورہ دونوں حالتیں باقی ہوں روزہ ساقط ہو جائے گا اور متروکہ روزہ کی قضاء لازم آئے گی۔ اس بات پر بھی اہلِ علم کا اجماع ہے۔

۵۔ الاستمناء (کسی بھی طریقہ سےمنی نکالنا)

استمناء سے مراد ہے کہ کسی بھی طریقے سے منی نکالنا، خواہ وہ ہاتھ کے ذریعہ ہو یا کسی اور ذریعہ سےاور خواہ ایسا کرنے والا غیر شادی شدہ ہو یا شادی شدہ جو اکیلے ایسا کرے یا اپنی اہلیہ کے بوس وکنار یا چھونے کی وجہ سے انزال ہو جائے ۔ اسی طرح اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں برابر ہیں۔

مذکورہ تمام صورتوں میں انزال (منی نکلنے) پر روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی قول اکثر اہل علم کا ہے۔جن میں ائمہ اربعہ ، ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں، اورایسی صورت میں وہ روزہ باطل ہو جائے گا اور اس کے بدلے قضاء لازم آئے گی۔

روزہ میں نظر (دیکھنے) کے باعث انزال ہونا:

یعنی دیکھنے کی وجہ سے انزال (خروج منی) ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:

۱۔ ایک ہی مرتبہ دیکھنے سے انزال ہو جانا۔ ایسی صورت میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ کچھ لوگ اپنی قوت ِشہوت اور سرعتِ انزال کے باعث بہت حساس ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کے لیے روزہ ٹوٹ جانے کا فتویٰ باعث ِمشقت ہے۔

۲۔ ہاں اگر کوئی بار بار ایسا کچھ دیکھے یا ایک ہی مرتبہ جی بھر دیکھے حتی کہ انزال ہو جائے۔ تو ایسے شخص کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس پر اس روزہ کی قضا لازم آئے گی۔

روزہ میں فکر(سوچنے) کے باعث انزال ہونا:

اور جہاں تک فکرو تصور کے باعث انزال ہو جانے کا مسئلہ ہے تو اس میں اہلِ علم کا یہی فتویٰ ہے کہ اس کا روزہ باقی ہے اور اس پر کچھ نہیں ہے۔

کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ’’اللہ تعالیٰ میری امت کے تصورات و افکارسےاس وقت تک تجاوز فرماتا ہے جب تک کہ وہ انہیں بیان نہیں کرتے یا ان پر عمل نہیں کرتے۔ [47]

اسی طرح کلام (بات چیت) کا معاملہ نظر جیسا ہی ہے اگر کم بات چیت پر انزال ہو جاتا ہے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور بات چیت بہت زیادہ ہو جو انزال کا سبب بنے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔واللہ اعلم

روزہ کی حالت میں جسم سے خون نکلنا

اس کی کچھ صورتیں ہیں۔

روزہ کی حالت میں حجامہ کرانا :

حجامہ سے مرادہےسینگی لگوانا ۔اورحجامہ کا یہ عمل عہدِ نبوی ﷺ سے رائج ہے، جس کا مقصد جسم سے فاسد اور نقصان دہ خون کو نکالنا ہے، یہ عمل ایک چھوٹے سے کیڑے کے ذریعہ بھی کیا جاتا ہے، یعنی اُسے جس جگہ سے فاسد خون نکالنا ہو، وہاں لگا دیا جاتا اور وہ وہاں سے فاسد خون چوس لیتا ہے۔ اسی طرح یہ لوہے کے آلات کپ وغیرہ کے ذریعہ بھی کیا جاتا ہے، جسے حجامہ کرنے والا مطلوبہ جگہ پر خفیف سا کٹ لگا کر اپنے منہ میں روئی دبا کر ان آلات کے ذریعہ فاسد خون کو چوستا ہے۔

یہ عمل آج بھی جدید آلات کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جو بہت سی مختلف اور بڑی بیماریوں کے لیے انتہائی زیادہ مفید اور مجرّب نبوی نسخہ ہے۔ جسم کے مختلف مقامات پر اسے استعمال کیاجاتا ہے۔ اسے کرنے والے کا بھی اس فن میں بہت ماہر ہونا ضروری ے۔ یہ عمل عام معالج و ڈاکٹرز بھی نہیں کر سکتے اور کسی اناڑی یا غیر متخصص کا یہ عمل کرنا نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

جہاں تک حالتِ روزہ میں حجامہ کرانے کا تعلق ہے تو اس میں اہلِ علم کا شدید اختلاف ہے۔

جمہور اہل علم حجامہ کرانے سے روزہ کے برقراررہنے کے قائل ہیں۔ جبکہ امام احمد، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ اور دیگر بعض اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ حجامہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

روزہ باقی رہنے کے قائلین کی دلیل صحیح بخاری میں موجود رسول اکرم ﷺ کا روزہ اور احرام کی حالت میں حجامہ کروانا ہے۔ [48]

جبکہ جو روزہ ٹوٹ جانے کے قائلین کا کہنا ہے کہ آپﷺ نے حجامہ کرنے والے اور کرانے والے دونوں کے لیے اسے روزہ ٹوٹنے کا سبب قرار دیا ہے۔[49] اس روایت میں اگرچہ کلام ہے اور بعض اہل ِعلم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام احمدرحمہ اللہ نے اسے اس باب میں سب سے زیادہ صحیح قرار دیا ہے ۔ اسی طرح امام ابن راھویہ، علی بن المدینی، امام بخاری، ابن حبان، حاکم وغیرہم رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے تو اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر قرار دیا ہے۔ [50]

سو اس روایت کی بنا پر حجامہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی جو حکمت بیان کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حجامہ کروانے والے کے روزہ ٹوٹنے کا سبب و حکمت یہ ہے کہ حجامہ کے ذریعہ جسم سے خون نکالا جاتا ہے جو کہ جسمانی ضعف کا باعث ہے اور اس پر حجامہ کروانے کے بعد کچھ نہ کھانا اور روزہ میں باقی رہنا مزید جسمانی کمزوری کا باعث ہے۔ جس سے مستقبل میں نقصان کا خدشہ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اوراپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرة: 195)

اور چونکہ مذکورہ آیت میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکا گیا ہے ،اسی لیے حجامہ کروانے والے کو فوراً روزہ افطار کرنے اور اس کے روزہ ٹوٹ جانے کی خبر دی گئی ہے۔ تاکہ حجامہ کے بعد روزہ اس کی ہلاکت میں پڑنے یا نقصان کا سبب نہ بنے۔ کیونکہ مسلمان کو ہر اس چیز سے روکا گیا ہے جو اس کے لیے باعثِ نقصان و ہلاکت ہو۔ سو اسی بنا پر روزہ کی حالت میں بغیر کسی معقول و ضروری وجہ کے سینگی لگانا ’’ نا جائز ‘‘ہے اور جو مجبوراً سینگی (حجامہ) لگوائے تو اسے چاہیے کہ روزہ توڑ دےاور بعد میں اس کی قضاء کرے۔

اور جہان تک حجامہ کرنے والے معالج کے روزہ ٹوٹنے کا سبب و حکمت ہے وہ یہ ہے کہ اُس زمانے میں حجامہ کرنے والا آلات کے ذریعہ مطلوبہ جگہ سے خود خون نکالنے کے لیے چوستا تھا، جیسا کہ پیچھےتفصیلاًبیان ہوا ۔ اور ایسی صورت میں پریشر کے باعث خون کا اس کے منہ میں آنا اور پیٹ میں جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے افطار کا حکم دیا گیا، اور پھر آگے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اگر حجامہ کرنے والا خود ایسا نہیں کرتا اور یہ خدشہ ختم ہو جاتا ہے (جیسا کہ آج کل کے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا) تو حجامہ کرنے والے کا روزہ باقی رہتا ہے۔ کیونکہ شرعی احکام میں علتوں (وجوہات و اسباب) کی بنیاد پر حکم (فتوی) لگائے جاتے ہیں۔ انتہی کلامہ

جسم سے خون نکلنے کی یگر صورتیں

جسم سے خون نکلنے کی دوسری صورت: یہ ہے کہ کسی بھی وجہ سے جسم سےاتنی مقدار میں خون نکل جائےجو معمولی نہ ہو ،جو جسمانی کمزوری کاسبب ہو، وہ کسی حادثہ کے باعث ہو، یا کسی کو خون دینے کی وجہ سے ،اور پھر وہ خون کا عطیہ ضرورةً ہویا بلا ضرور ت ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

جسم سے خون نکلنے کی تیسری صورت: یہ ہے کہ جسم سے معمولی مقدار میں خون نکلے، جیسے دانتوں سے خون کا آنا (اسے نگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دینا چاہیے) اور خارش کی وجہ سے یا زخم کی خرابی یا بگڑ جانے سے ہلکا سا خون کا نکلنا، یا جسم پر کہیں کٹ لگنے کی وجہ سے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے ہلکا سا خون نکلنا اس طرح خون ٹیسٹ کروانے کے لیے معمولی سا خون نکالنا وغیرہ وغیرہ۔ اس صورت میں روزہ باقی رہتا ہے۔ واللہ اعلم

تنبیہ: روزہ توڑنے والی مذکورہ تمام صورتوں میں ’’روزہ فاسد‘‘ ہونے کی شروط

اگر کوئی روزہ توڑنے والے امور میں سے کسی کا ارتکاب کر لے تو اس کا روزہ اس وقت تک نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ اس میں یہ ۳ شروط نہ ہوں اور وہ شروط مندرجہ ذیل ہیں:

روزے توڑنے والے امور کا ارتکاب:

جان بوجھ کر / اختیاری طور پر/ اور یاد رکھتے ہوئے کرے ۔

اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا ، یا غلطی سے کوئی چیز اس کے منہ میں چلی گئی جیسے گردو غبار ، دھواں، کوئی کیڑا وغیرہ ، یا اس نے کلی کی اور پانی غلطی سے بغیر اختیار کے اندر چلا گیا وغیرہ وغیرہ تو اس کا روزہ باقی اور صحیح ہے۔

اسی طرح اسے کچھ کھانے یا پینے پر مجبور نہ کیا گیا ہو اور اگر اکراہ کے طور پر اس نے ایسا کیا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اکراہ کے طور پر کفر کو اللہ معاف فرما سکتا ہےجیسا کہ (سورة النحل : ١٠٦) میں ہے تو کفر کے علاوہ میں تو بالاولیٰ معافی ہوگی۔

اسی طرح فرمان رسول بھی ہے کہ اللہ نے میری امت کی غلطی، بھول اور اکراہ میں کیے جانے والے عمل کو معاف کر دیا ہے۔[51]

تیسری شرط یہ ہے کہ اس نے بھول کر نہ کیا ہو بلکہ یاد رکھتے ہوئے کیا ہو۔ وگرنہ اس کا روزہ صحیح ہے۔ جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا کہ نسیان بھی معاف ہے۔

دیگر وہ امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

وہ مندرجہ ذیل ہیں:

احتلام ہو جانا، غسل کرنا، حلق میں مکھی یا مچھر کا چلے جانا، حلق میں گرد و غبار یا دھواں چلے جانا، بھاپ کا حلق میں غلطی سے چلے جانا، ضرورت پڑنے پر ہنڈیا میں نمک وغیرہ کا چکھنا(اور اسے اندر نہیں نگلے) اسی طرح ماں کا اپنے نومولود بچے کو کوئی چیز چبا کر نرم کر کے دینا، غلطی سے کلی کرتے ہوئے یا حلق یا ناک میں پانی ڈالتے ہوئے دماغ تک پہنچ جانا، یا غرارے کرتے ہوئے حلق میں پانی چلے جانا، تھوک کا نگل لینا۔

اور جہاں تک دانت صاف کرنے کے لیے ٹوتھ پیسٹ یا معجون ، منجن وغیرہ کے استعمال کا تعلق ہے تو اہلِ علم میں کچھ نے اس کی اجازت دی ہے اور کچھ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ پیسٹ کا حلق میں جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ وہ مسواک کا استعمال کرے جو کہ مسنون بھی ہے۔ ہاں وہ خالی ٹوتھ برش استعمال کر سکتا ہے۔

مسئلہ : روزہ کے دروان بوس و کنارکرنا (چومنا)

اسکی ۳ صورتیں ہیں:

۱۔بوس و کنار سے شہوت نہ ابھرتی ہو:

جیسے: چھوٹے بچوں کو چومنا، یا کسی مسافر کی واپسی پر اسے چومنا وغیرہ، اس سے روزہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

۲۔بوس و کنار سے شہوت ابھرتی ہولیکن خروجِ منی کے ذریعہ روزہ کےفاسد ہونے کا ڈر نہ ہو:

ایسی صورت میں بوس وکنار جائز ہے مگر احتیاط بہتر ہے۔

۳۔بوس و کنار سے شہوت ابھرتی ہواورخروجِ منی یا جماع میں واقع ہوجانےکاخدشہ ہو :

ایسی صورت میں بوس و کنار بھی حرام ہے۔

اسکے علاوہ گلے ملنا ،جسم سے جسم ملانا، چمٹنا،چھونااور دیکھنا وغیرہ ان سب کا حکم بھی بوس و کنار کی مذکورہ تفصیل کے مطابق ہے۔

وہ امور جن سے روزہ کی قضاء و کفارہ مغلّظہ دونوں لازم آتے ہیں

جمہور اہل علم کے نزدیک وہ صرف جماع (ہمستری) ہی ہے۔

روزہ کی حالت میں جماع کرنا ؟

اگرکوئی حالت روزے میں جماع کرلے تو اس پر قضاء اورکفارہ دونوں لازم آتے ہیں اور اس بات پر اجماع ہے۔اور حالت روزہ میں جماع (ہمبستری) کرنا یہ روزہ توڑنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور حرمت کے لحاظ سے سب سے زیادہ سخت ہے۔ اس لیے جو اس کا ارتکاب کرے گا اسے اس روزہ کی قضاء کے ساتھ کفارہ مغلظہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔

بشرطیکہ اس میں 3 شروط پائی جائیں :

اس پر روزہ فرض ہو،یعنی وہ نابالغ یا پاگل وغیرہ نہ ہو۔

روزہ کو ساقط کرنے والی کوئی وجہ نہ ہو جیسے مسافرایسا کرے یا وہ مریض جسکے لیے روزہ چھوڑناجائز ہولیکن وہ روزہ رکھ لے اور پھر جماع کا مرتکب ہوجائےیاکوئی غیر رمضان میں رمضان کے روزہ کی قضا ء کرتے ہوئے ایسا کرے توان سب پر قضاء ہے کفّارہ نہیں ۔

کفارہ مغلظہ کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

یا تو گردن آزاد کرے (جو کہ آج کے دور میں ممکن نہیں ہے)اگروہ نہیں پائے تو دو مہینے کے لگاتار ،پے درپے ، بغیر گیپ کے روزے رکھے،اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔( اور اگر اس کی بھی طاقت و قدرت نہ ہو تو توبہ و استغفار کرے اور دوبارہ ہر گز ایسا نہ کرے )۔[52]

وآخرُ دعوانا أن الحمد للہِ ربِّ العالمین

مراجع و مصادر

[1] رواہ احمد والنسائی والبیہقی

[2] رواہ احمد والنسائی باسناد جید

[3] رواہ مسلم

[4] رواہ احمد، والبیہقی باسناد جید

[5] صحیح ابن ماجہ للالبانی، ج۱۳۳/۱

[6] رواہ ابن خزیمہ والبزار

[7] أخرجه مسلم (2/759 رقم 1080)

[8] أخرجه أبو داود 2 / 756 برقم (2348) ، وابن حبان 8 / 231 برقم (3747) وصححه ، والحاكم / 24 وصححه ووافقه الذهبي، وصححه ابن حزم ۔

[9] صحيح البخاري الصوم (1801),صحيح مسلم الصيام (1080) .

[10] رواہ الترمذی (730) صححہ الالبانی فی صحیح الترمذی (583)

[11] صحیح مسلم : 1154

[12] أخرجه البخاري ( الفتح 10 / 369 ط السلفية ) ومسلم ( 2 / 807 ط . الحلبي ).

[13] رواہ النسائی و احمد

[14] أخرجه الترمذي ( 5 / 578 ) وقال : حديث حسن .

[15] متفق علیہ

[16] رواه البخاري (494) ومسلم (5150)

[17] رواه البخاري النكاح (4779), و مسلم النكاح (1400)

[18] أخرجه البخاري ( الفتح 4 / 139 ) ومسلم ( 2 / 770).

[19] أخرجه البخاري ( الفتح 4 / 138 ط . السلفية ) ومسلم ( 2 / 771 ط . الحلبي ) .

[20] أخرجه الترمذي ( 3 / 70 ) وقال : حديث حسن .

[21] أخرجه أبو داود ( 2 / 765 ) والدارقطني ( 2 / 185 ) وحسن الدراقطني إسناده وقال الحاكم : صحِيح على شرط الشّيخين .

[22] الحدیث ضعیف (مرسل) لأن ا- معَاذ بن زهرَة لم یدرک النبی علیہ السلام، البدر المنير – (5 / 710)وروایۃ اخری عن: ب- عبد الْملك بن هَارُون : وھو کذّاب دجّال ، وضّاع ، لا یعرف ، لیس بمعروف ۔البدر المنير – (5 / 711),التلخيص الحبير – (2 / 444)، التلخيص الحبير – (2 / 445) وعن : داود بن الزبرقان وهو متروك. نيل الأوطار – (4 / 301)، إرواء الغليل – (4 / 3738) تراجعات العلامة الألباني في التصحيح والتضعيف – (1 / 23) .

[23]رواه أحمد والترمذي ،وابن خزيمة وابن حبان۔

[24] البخاري : الصوم 1903

[25] أخرجه مسلم (2/809)

[26] رواه ابن ماجه (1690) وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه .

[27] أحمد 6 / 100101، 101، 144، وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وابن حبان ، والحاكم والحدیث صححہ الالبانی

[28] بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ: ایاما معدودات۔۔۔۔۔۔مسکین 4505

[29]بخاری کتاب التفسیر، (4507) مسلم، کتاب الصیام (1145)

[30] أخرجه الدارقطني (2/207) وصححه الألباني في الإرواء (4/21).

[31] صحیح بخاری کتاب الصیام،باب الصوم فی السفر والافطار 1943، ومسلم الصیام، 1112

[32] صحیح البخاری، الصوم، باب لم یعب اصحاب النبی بعضہم بعضا فی الصوم والافطار 1947، ومسلم الصیام، 118

[33] أخرجه البخاري في الصوم (1945)؛ ومسلم في الصيام/ باب التخيير في الصوم والفطر في السفر (1122).

[34] أخرجه مسلم في الصيام/ باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان للمسافر في غير معصية (1114)

[35] أخرجه البخاري معلقاً بصيغة التمريض في التيمم/ باب إذا خاف الجنب على نفسه المرض أو الموت…، ووصله أبو داود في الطهارة/باب إذا خاف الجنب البرد أيتيمم؟ (334)، والدارقطني (1/178) وصححه ابن حبان (1315) والحافظ في الفتح.

[36] أخرجه البخاري في الصوم/ (1946) ومسلم في الصيام/ (1115) عن جابر رضي الله عنه.

[37] أخرجه البخاري في الإجارة/ باب استئجار المشركين عند الضرورة أو إذا لم يوجد أهل الإسلام (2263)

[38] أخرجه البخاري في الحيض/ باب ترك الحائض الصوم (304)

[39] أخرجه البخاري 1 / 83، ومسلم 1 / 265 برقم (335)

[40] أخرجه أحمد (4/347) وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وحسنه الترمذي، وفي تخريج المشكاة (2025) سنده جيد.

[41] دیکھیے : الشرح الممتع لشیخ عثیمین رحمہ اللہ

[42] البخاري ( الفتح 4 / 155 ط . السلفية ) ومسلم ( 2 / 809 ط . الحلبي )

[43] أخرجه الترمذي(3 / 146الحلبي) وقال حسن صحيح وصححه الألباني صحيح الترمذي (631)

[44] الشرح الممتع لشیخ عثیمین رحمہ اللہ

[45] أخرجه ابن ماجه في الطلاق(2045/2043)و صححه ابن حبان(7219) و الحاكم (2/198)على شرط الشيخين ووافقه الذهبي.

[46] أخرجه أحمد(2/498) وأبو داود في الصيام(2380) والترمذي في الصوم(720)

[47] أخرجه البخاري في العتق (2528) و مسلم في الإيمان (127)

[48] البخاري في الصوم/ باب الحجامة والقيء للصائم (1938)

[49] أخرجه أحمد (4/123)؛ وأبو داود في الصيام (2368)؛ والنسائي في السنن الكبرى (3126) ط/الرسالة؛ وابن ماجه في الصيام (1681)؛ وصححه ابن حبان (3533)؛ والحاكم (1/428).

[50] التلخيص للحافظ (2/193)، شرح المهذب (6/350)، وانظر طرق هذا الحديث في السنن الكبرى للنسائي.

[51] أخرجه ابن ماجه في الطلاق/ باب طلاق المكره والناسي (2043) (2045) و صححه ابن حبان (7219) و الحاكم (2/198)على شرط الشيخين ووافقه الذهبي.

[52] أخرجه البخاري في الصوم/ باب إذا جامع في رمضان ولم يكن له شيء فتصدق عليه فليكفر (1936)؛ ومسلم في الصيام/ باب تحريم الجماع في شهر رمضان… (1111)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے