’’ ماں‘‘ تین حروف پر مشتمل یہ ایک لفظ اپنے اندر معنی و مفاہم کا ایک جہاں سمیٹے ہوئے ہے ’’م‘‘ محبت و مودت، ’’الف‘‘ انسیت ، احساس ، الفت اور ’’ن‘‘ نرم و شیریں ،نعمت عظمیٰ جیسے جذبات کا نچوڑ ہے ۔

لفظ’’ ماں‘‘کا مطلب!

کسی نے پوچھا ’’ماں ‘‘ کیا ہے ؟

سمندر نے کہا ماں ایسی ہستی ہے جو اولاد کے راز کو سینے میں چھپا لیتی ہے ،بادل نے کہا ماں ایک دھنک ہے جس میں ہر رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔شاعر نے کہا ماں ایک ایسی غزل ہے جو ہر سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے، اولاد نے کہا ماں ممتا کی وہ انمول داستان ہے جو ہر دل پر قربان ہے، ٹرین ڈرائیور نے کہا ماں چاہتوں کی نان سٹاپ ٹرین ہے،ریاضی دان نے کہا ماں دعائوں اور کامیابیوں کا لا متناہی سلسلہ ہے ،نیوز ریڈر نے کہا ماں زندگی کی سب سے مہکتی، پیاری خبر ہے ۔کرکٹر نے کہا ماں شادمانی کے رنز کی برسات ہے ،ڈاکٹر نے کہا ماں زندگی کا سب سے بڑا مرہم ہے ،بنکار نے کہا ماں محبت سے بھرا بنک ہے، کسان نے کہا ماں سدا بہار لہکتا مہکتا باغ ہے، مچھیرے نے کہا ماں قطرہ قطرہ محبت کا دریا ہے، ملا ح نے کہا ماں اپنائیت کا پر سکون سمندر ہے، فنکار نے کہا ماں زندگی کے سٹیج کا سب سے اہم کردار ہے، ہدایت کار نے کہا ماں جگمگاتی روشنیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اُستاد نے کہاماں زندگی کااہم ترین، پیارا ترین، نرالا ترین سوال ہے ،فوجی نے کہا ماں میرے پیار کا ٹینک اور میری کا میابیوں کا میزائل ہے، ٹرک ڈرائیور نے کہا ماں خوشیوں ، خو شبوئوں اور خاموش دعائوں کا لانگ روٹ ہے،طالب علم نے کہا ماں میرے لئے پر سکون سایہ ہے ، گورکن نے کہا ماں کے بغیر گھر ایک قبرستان ہے ، اما م الانبیاء محمد مجتبیٰﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ{ جنت ماں کے قدموں تلے ہے } خالق کائنات نے کہا {ماں میری طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے} ۔

میں بھی کہتی ہو ں کہ میری امی جی اللہ تعالیٰ کی طر ف سے عطا کردہ سب سے خوبصورت ،حسین اور قیمتی تحفہ ہے ۔ میری امی جی کا نام ہاجرہ بیگم ہے ۔وہ 1938میں فیروز پور انڈیا میں پیدا ہوئیں۔ ہمارے نا نا جی حاجی عبدالعظیم خان رحمۃ اللہ علیہ اور نانی جی عائشہ بی بی رحمۃ اللہ علیہا کے ہاںایک بیٹی اور تین بیٹے پیدا ہوئے ، لیکن امی جی اور مامو ں جی محمد بلال خان حیات رہے باقی دونوں بیٹے پیدائش کے فوراً بعد وفات پا گئے۔ یوں امی جی اور ماموں جی بلال خان والدین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

اس دور کے زریں اصول کے مطابق امی جی نے پہلے محلے کی ایک نیک خاتون ’’آپا زینت صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا‘‘ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک کی تعلیم کی تکمیل کے بعد امی جی کو سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ امی جی ایک سال میں ’’کچی اور پکی‘‘ مکمل کر کے پہلی جماعت میں آگئیں۔

اسی دوران تحریک پاکستان زور شور سے شروع ہو گئی۔ قیام پاکستان کے وقت امی جی کی عمر نو سال تھی۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ وہ بتاتی ہیںکہ ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے ،مسلمانوں نے اسلامی ملک پاکستان کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ محلے میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں نے نا نا جی کو مشورہ دیا’’ خان صاحب‘‘ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکل جائیں ۔نا نا جی کے ایک بے حد معزز اور معتبر دوست مولانا عطا ء اللہ حنیف بھو جیا نوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور نا نا جی عبد العظیم خان رحمۃ اللہ علیہ نے باہمی مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ پاکستان ہجرت کر نا ہی بہتر ہے۔ لہٰذا نا نا جی نے زیور اور دیگر قیمتی سامان ایک صندوق میں رکھا اور گا ئیوں اور بھینسوں کے رسے کھول دئیے اور اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ امی جی بتاتی ہیں ہر طرف’’ گورکھے ‘‘ پہرہ دے رہے تھے ۔مولا نا عطا ء اللہ حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنا ذخیرہ کتب ساتھ لانا چاہتے تھے لیکن گورکھوں نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا جس پر وہ بہت غمزدہ ہوئے۔ نا نا جی نے انہیں تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں پاکستان جا کر اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آپ کو دوبارہ یہ خزانہ عطا فرمائے گا۔ نانا جی کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی مولاناعطاء اللہ حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان آ کر نہ صرف علم کی دولت حاصل کی بلکہ ایک بہت بڑا اشاعتی ادارہ ’’مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور ‘‘بنایا جو آج بھی بہترین کتا بیں شائع کرنے میں اپنا ثا نی نہیں رکھتا ۔

الحمد للہ نا نا جی، نانی جی، مامو ں جی اور امی جی بخیر و عافیت قصو ر پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ وہا ں گزار کر خانیوال آ گئے جہاں نا نا جی نے فیر وز پور والے پرانے نام ’’زم زم دواخانہ ‘‘سے حکمت کی دوکان دوبارہ شروع کی جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈالی ۔

قیام پاکستان کے وقت امی جی کی عمر نو سال تھی۔ پاکستان آکر تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لئے نانا جی نے شرط رکھی کہ ٹوپی والا برقعہ پہن کر جانا ہو گا۔ امی جی نے بلا چوں چرایہ شرط مان لی اور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خانیوال سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد جب امی جی چھٹی جماعت میں آئیں تو ٹیچرز نے علامہ اقبال کی نظم’’ ماں کا خواب ‘‘پر ڈرامہ تیار کروایا جس میں زبر دستی امی جی کو بھی ایک رول دے دیا گیا جب یہ خبر نا نا جی تک پہنچی تو ڈرامہ میں کام کرنے کے جرم میں امی جی کو سکول سے ہٹا لیا گیا ۔اور گھر پر ہی تعلیم و تربیت شروع کر دی۔

نانا جی اور نانی جی نے دونوں بچوں کی خالص اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت کی۔ سات سال کی عمر میں دونوں بچو ں کو نماز کی پابندی کی عادت ڈال دی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گئی۔ہم نے اپنی امی جی اور ماموں جی کو کبھی نماز قضاء کرتے نہیں دیکھا ۔نانی جی نے گھر پر بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم، ترجمہ اور اردو لکھنا پڑھنا سکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈپٹی نذیر احمد دھلوی کے ناوّل ’’مراۃ العروس‘‘ کی اصغری کی طرح نانی جی کے گھر میں ایک مکتب بن گیا۔

جہاں لڑکیوں کو لکھنے پڑھنے کے علاوہ کھانا پکانا، کڑہائی، سلائی، بنائی، کرسیاں، چارپائیاں بننا اور دیگر ہنر بھی سکھائے جانے لگے۔ امی جی نے بھی اکلوتی بیٹی اور نوکر چارکر ہونے کے باوجود یہ سب کام انتہائی لگن اور شوق سے نہ صرف سیکھے بلکہ اپنے گھر پر یہ سارے ہنر آزمائے بھی۔امی جی ماشاء اللہ ہر فن مولا ہیں۔

محبت، عشق ،چاہت کا جو رشتہ ہے، میری ماں ہے

بشر کے روپ میں گویا فرشتہ ہے، میری ماں ہے

بنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں

وہی اک دل نشیں خوش رنگ رشتہ ہے، میری ماں ہے

1954؁ء میں سولہ سال کی عمر میں امی جی کی شادی اپنے فرسٹ کزن’’ عبد الرحمن خان ‘‘یعنی ہمارے ابا جی سے ہوئی۔

شادی کے وقت امی جی کی عمر سولہ سال اور اباجی کی عمر اٹھائیس (28)سال تھی ۔امی جی نے اس معاملے میں بھی والدین کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا۔ امی جی نے نا ناجی ، نانی جی اور ابا جی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ وہ بہت حوصلہ مند خاتون ہیں ۔وہ انتہائی خاموش خدمت گار کے طور پر خوش دلی سے اپنا فرض انجام دیتی رہیں۔

بڑے بڑے صدمات پر بھی انہوں نے ہمیشہ صبر و شکر سے کام لیااو رکبھی حرف شکایت زباں پر نہیں لائیں ۔

میکے میں عیش و آرام کی زندگی کے مقابلے میں شادی کے بعد انہیں تنگی، ترشی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہیں۔ ان کے صبر و شکر کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں سے بھی نوازا اور ابا جی کے کارو بار حکمت میں بے انتہا برکت ڈالی۔

میرا ایک بھا ئی محمد اجمل خان تقریباً بارہ سال کی عمر میںوفات پا گیا تو امی جان نے بڑے حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کیا، نانا جی، نا نی جی کی وفات پر بھی انہوں نے کوئی واویلا نہیں کیا حتیٰ کہ ابا جی کا 27جنوری 1995؁ء کو انتقال ہوا تو تب بھی امی صبر و برادشت کا کوہ گراں بنی رہیں۔ اکلوتے بھائی ماموںبلال خان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا دکھ صبر سے سہا۔ میرے بہنوئی زاہد اقبال خان صرف 35سال کی عمر میں وفات پا گئے تو بھی انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اب میرے شوہر پر وفیسر محمد یحییٰ عزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر بھی انہوں نے کہا :الحمد للّٰہ علی کل حال ما کان

امی جی کی شخصیت پر نانا جی اور نا نی جی کی شخصیت اور تربیت کے گہرے اثرات ہیں۔

ہم نوبہن بھائیوں کی اکیلے پرورش و تربیت کی مصروفیات بھی ان کی عبادت کے معمولات میں آڑے نہیں آئیں

وقت پر نماز پڑھنا، باقاعدگی سے روزے رکھنا، صبح سویرے اُٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا ان سے کبھی قضا نہیں ہوا۔ رمضان میں روزانہ دس سپاروں کی تلاوت کرنا اور پورے رمضان میں دس مرتبہ قرآن پاک پڑھنا جو انی سے آج تک ان کا معمول ہے۔ ہم نے کبھی ان کے سر سے دوپٹہ اترا ہوا نہیں دیکھا۔ انہوں نے اونچی آوازمیںکبھی بات نہیں کی۔ اہل محلہ کہتے تھے کہ یہ واحد گھر ہے جہاں سے کوئی آواز کبھی باہر نہیں آئی۔ ہم نے آج تک ان کے منہ سے بددعا یا گالی نہیں سُنی حتیٰ کہ وہ ’’نام نہاد اپنے ‘‘جوان کی کروڑوں کی جائیداد ہتھیا کر لے گئے ان کو بھی انہوں نے کبھی بد دعا نہیںدی ۔

ماں ساتھ ہے تو سایہ قدرت بھی ساتھ ہے

ماں کے بغیر لگے کہ دن بھی رات ہے

دامن میں ماں کے صرف دعائوں کے پھول ہیں

ہم سارے اپنی ماں کے قدموں کی دھول ہیں

اولاد کے ستم اُسے ہنس کر قبول ہیں

بچوں کو بخش دینا ہی ماں کے اصول ہیں

انہوں نے ہمارے کھانے پینے، پہننے، پڑھنے کاہمیشہ خیال رکھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ہم سب بہن بھائیوں میں سے کبھی کوئی بغیر ناشتہ کیے سکول گیا ہو۔ سکول سے واپسی پر ہم اپنا ہوم ورک وغیرہ کرتے اگر کہیں کوئی دقت ہوتی تو امی جی فورًا ہماری رہنمائی کرتیں۔ حساب کا کوئی سوال حل نہ ہوتا تو امی جی فورًا مثال کے طور پر حل کرکے دیا گیا سوال دیکھتیں اور پھر وہ سوال چٹکیوں میں حل کر دیتیں، کسی لفظ کا مطلب سمجھ میں نہ آتا وہ فورًا سمجھا دیتیں۔ قرآن شریف بھی ہم نے اپنے گھر میںہی پڑھا

فارغ وقت میں اخبار و رسائل پڑھنا امی کا شروع ہی سے شوق ہے۔ مذہبی رسائل و اخبارات، کتب کے علاوہ پاکیزہ، خواتین ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ اور روزانہ کا اخبار پڑھنا امی جی کے معمولات میں شامل ہے۔

مجھے آج جو با عزت مقام حاصل ہے،میں نے زندگی میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کیں ان کے پیچھے میری محنت و ذہانت سے زیادہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل و کرم، امی جی اور ابو جی کی محبت و خلوص اور دعائوں کا دخل ہے۔

یہ کامیابیاں، یہ عزت یہ نام تم سے ہے

خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے

جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں

جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے

مختصر یہ کہ پیار، وفا، قربانی، لگن، سچائی، خلوص پاکیزگی، سادگی، سکون، محبت، طمانیت، خدمت، معصومیت، امانت، دیانت سایہ عاطفت، ہمدردی، رہنمائی، بے غرضی، جذبہ ایمانی سے سر شاری اور اللہ تعالیٰ پر توکل یہ سب میری امی جی کی خوبیوں کی ایک جھلک ہے۔

مختصر یہ کہ امی جی ایک بہترین بیٹی، ایک بہترین بہن، ایک بہترین بیوی، ایک بہترین ماں، ایک بہترین دوست، ایک بہترین استاد، ایک بہترین رہنما اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین مسلمان ہیں۔ الحمد للہ۔

ماں کے قدموں میں میری جنت ہے

اس کی خوشیوں کی رب سے منت ہے

کامیاب زندگی کے لیے یاد رکھیئے

’’آپ ماں باپ کو خوش رکھیں

اللہ آپ کو خوش رکھے گا ‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے