اسم کے متعلق معلومات نمبر 2

عدد (NUMBER)

ہمارے ہاں عدد کا معنیٰ گنتی (COUNTING) یا گننا ہے۔لیکن عربی گرامر میں عدد سے مراد اسم کے متعلق یہ جاننا کہ وہ اسم واحد (SINGULAR)یا جمع (PLURAL)ہے یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ باقی تمام زبانوں میں ایک اسم کو ظاہر کرنے والے لفظ کو واحد (SINGULAR) اور ایک سے زائد کے لیے جمع (PLURAL) کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں ان دو لفظوں کے درمیان دو کی تعداد کو ظاہر کرنے کے لیے بھی ایک مرحلہ (STEP) ہے اسے تثنیہ (DUAL) کہتے ہیں۔

لہذا عربی زبان میں عدد سے مراد یہ ہوئی کہ آیا اسم واحد، تثنیہ یا جمع ہے۔

عدد: واحد، تثنیہ، جمع

واحد (SINGULAR)

ایسا اسم جو ایک شے، ایک فرد کے لیے استعمال ہو مثلاً: اَلْقَلَمُ (قلم) اَلْکِتَابُ (کتاب) اَلساعَۃُ (گھڑی) وغیرہ ان اسماء کے شروع میں آنے والے الف لام (ال) کو اگر ہٹا بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا واحد ہی رہیں گے جیسے قلم، کتاب، ساعۃ وغیرہ

تثنیہ (DUAL)

دو اسماء کے لیے استعمال ہونے والے لفظ کو عربی میں تثنیہ (DUAL) کہتے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے آخر میں الف نون (ا،ن) آتا ہے۔

عربی گرامر ترتیب دینے والوں نے قرآن مجید کے الفاظ پر جب غور کیا تو انہیں قرآن میں کئی ایسے الفاظ نظر آئے جن کے آخر میں الف، نون (ا، ن) آرہا تھاجیسے ھذان، ساحران، عبدان، صالحان وغیرہ جب انہوں نے تحقیق کی تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ جس لفظ کے آخر میں الف، نون (ا،ن) آ رہا ہو گا اس میں (دو) کا معنی پیدا ہو گا۔

تثنیہ (DUAL) بنانےکا طریقہ

اس کا طریقہ کار بہت سادہ سا ہے صرف آپ نے اسم واحد (SINGULAR) کے آخر میں الف اور نون کا اضافہ کر دینا ہے تو وہ تثنیہ بن جائے گا جیسے کتابٌ سے کتابانِ، اس لفظ پہ غورکریں اس میں الف نون کے اضافے کی وجہ سے ایک معمولی سی تبدیلی واقع ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ باء (بٌ) کے اوپر سے دوہری حرکت (تنوین) ختم ہوگئی ہے کیونکہ الف کی مطابقت (COORDINATON) ہمیشہ زبر کے ساتھ ہوتی ہے یعنی الف سے پہلے آنے والا حرف ہمیشہ زبر والا ہوتا ہے اس لیے تنوین کو ختم کر کے باء (ب) کے اوپر زبر لگا دیا گیا ہے اس طریقہ کار کے مطابق ہم ہر اسم واحد کو تثنیہ بناسکتے ہیں جیسے قلمٌ سے قلمانِ، کرسیٌ سے کرسیانِ وغیرہ۔

جمع (PLURAL) تین یا تین سے زائد جتنی بھی تعداد ہو جمع کہلاتی ہے۔

جمع (PLURAL) کی اقسام:

(۱) جمع مکسر              (۲) جمع سالم

(۱) جمع مکسر (BROKEN PLURAL)

مکسر کا لفظی معنی ہے ٹوٹا ہوا یعنی ایسی جمع جس کا واحد ٹوٹ جائے اپنی اصلی شکل برقرار نہ رکھ سکے مثلاً رجلٌ (آدمی) جمع: رجالٌ(دو سے زیادہ آدمی) کتاب، جمع کتبٌ (کتابیں) إمرأۃ (عورت) نساء(عورتیں)

مندرجہ بالا تمام مثالوں پہ غور کریں کہ کسی ایک جگہ بھی اسم واحد جمع میں تبدیل ہونے کے بعد اپنی اصلی حالت کو برقرار نہیں رکھ سکا کہیں حروف کی ترتیب بدل گئی کہیں حروف میں اضافہ کہیں کمی واقع ہو گئی ہے اور جبکہ لفظ امرأۃ (عورت) اس کی جمع میں تو واحد کا کوئی حصہ بھی باقی نہیں رہا یعنی اس کی جگہ مکمل طور پر ایک نئے لفظ نے لے لی وہ ہے نساءٌ (عورتیں)۔

جمع مکسر کی پہچان کی کوئی خاص (نشانی یا علامت) نہیں ہے۔

جمع مکسر کی مثالیں:

طفلٌ(بچہ) جمع: اطفال، عینٌ (آنکھ) جمع: أعینُ، یدٌ (ہاتھ) جمع: أیدی، رجلٌ(پاؤں) أرجلٌ

(ب) جمع سالم:

اس کی مزید دو قسمیں ہیں۔ (۱) جمع مذکر سالم (۲) جمع مؤنث سالم

(۱) جمع مذکر سالم

عربی گرامر ترتیب دینے والوں نے جب قرآن کے الفاظ پر غور کیا تو دیکھا کہ جب اسم واحد مذکر کے آخر میں واؤ اور نون (و، ن) کا اضافہ ہوتا ہے یہ جمع مذکر کا معنی دیتا ہے۔ اس جمع کو سالم اس لیے کہتے ہیں کہ اس کو بنانے کے لیے اسم واحد کے کسی حرف کو نکالا یا آگے پیچھے نہیں کیا جاتا وہ اپنی اصلی حالت میں رہتا ہے یعنی پہلے کی طرح صحیح سالم رہتا ہے جیسے مؤمنٌ سے مؤمنون، کافرٌ سے کافرون۔

مندرجہ بالا دونوں الفاظ پر غور کریں ان میں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سوائے واؤ نون (و،ن)کے اضافے کے ان کے اسم واحد کے حروف اپنی جگہ پر اسی پرانی ترتیب میں موجود ہیں۔

اسم ذات اور صفت کی جمع میں فرق:

اسم ذات وہ اسم جس سے ذہن میں کسی چیز کی تصویر نمودار ہو مثلاً کتاب، کاغذ کی بنی ہوئی ایک تصویر ذہن میں آگئی قلم کی ایک شکل ذہن میں نمودار ہوئی مسجد اینٹوں سے بنی ہوئی ایک مقدس عمارت کی تصویر ذہن میں ابھر آئی مندرجہ بالا تمام اسماء کا تعلق اسم ذات سے ہے۔

اسم صفت: جس اسم کو سن کر کسی اچھائی کا یا کسی برائی کا پتہ چلے جیسے صادقٌ (سچ بولنے والا) کاذبٌ (جھوٹ بولنے والا) مؤمنٌ (اللہ کی ذات اور اس کے احکامات اور ضابطوں پر ایمان لانے والا) کافرٌ (انکار کرنے والا) مسلمٌ (اللہ کا فرمانبردار) یہ تمام الفاظ یا تو اچھائیوں کو بیان کر رہے ہیں یا برائیوں کو ایسے اسماء کو اسم صفت کہتے ہیں۔کتاب اسم ذات ہے اس کی جمع کتابون غلط ہے قلم اسم ذات ہے اس کی جمع قلمون غلط ہے مسجد اسم ذات ہے جو کہ ایک ڈھانچے اور ایک وجود کا نام ہے اس کی جمع مسجدون غلط ہے۔

مسلم اسم صفت ہے یہ ایک اچھائی کو بیان کرنے والا اسم ہے کافر کائنات کی سب سے بڑی برائی ہے یہ بھی اسم صفت ہے اس قسم کے اسماء کی جمع (و،ن) کے ساتھ آتی ہے مسلم کی جمع مسلمون، کافر کی جمع کافرون، صادق کی جمع صادقون لہٰذا(و،ن) صرف اسم صفت واحد مذکر کو اسم صفت جمع مذکر سالم میں تبدیل کرتا ہے۔

نتیجہ: (۱) اسم صفت مذکر کی جمع، جمع سالم قاعدے کے مطابق (ون) کے ساتھ آتی ہے۔

(۲) اسم ذات کی جمع، جمع مکسر ہوتی ہے جس کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا۔

جمع مذکر سالم کی مثالیں:

مہندسٌ(انجینئر)جمع: مہندسون،فاسقٌ (نافرمان) جمع: فاسقون، متکبر (تکبر کرنے والا) جمع: متکبرون، صائمٌ (روزہ دار) جمع: صائمونٌ، عابد (عبادت گزار) جمع: عابدون

جمع مؤنث سالم [گول تاء (ۃ) والی مؤنث کی جمع]

وہ مؤنث اسماء جن کے اسم واحد کے آخر میں گول تاء (ۃ) ہو، ان کی جمع (جمع مؤنث سالم) کے طریقے پر ہوتی ہے مؤنث سالم کی جمع بنانے کا طریقہ۔

یہ بہت آسان اور سادہ طریقہ ہے اس میں آپ نے یہ کرنا ہے کہ اسم واحد کے آخر سے گول تاء (ۃ) کو ہٹا کر الف اور لمبی تاء (ا،ت) لگا دیں۔

اس قاعدے کی مشق/ اجراء (APPLICATION)  ایک لفظ پر کرتے ہیں۔

مسلمٌ (واحد مذکر) مسلمونَ (جمع مذکر) مسلمۃٌ (واحد مؤنث) مسلماتٌ (جمع مؤنث)

اب اسی طرح ایک لفظ (مؤمن) ہے جو کہ بنیاد ہے اس ایک لفظ سے مذکر اور مؤنث کے واحد، تثنیہ اور جمع کی چھ شکلیں بناتے ہیں۔

واحد          تثنیہ         جمع

مؤمن        مؤمنان     مؤمنون     (مذکر کے لیے)

مؤمنۃ       مؤمنتان    مؤمناتٌ    (مؤنث کیلئے)

جمع مؤنث سالم کی نشانی:

اس کے آخر میں الف اور لمبی تاء (ات) آتی ہے جس کی ادائیگی (اتٌ) ہے جیسے مسلماتٌ، مؤمناتٌ، قانتاتٌ، صادقاتٌ وغیرہ لہٰذا (ون) جمع مذکر جبکہ الف، تاء (ات) جمع مؤنث کی نشانی ہے۔

نوٹ:

1۔ بعض اسماء کی جمع بیک وقت سالم اور مکسر ہوتی ہے مثلاً نبی کی جمع نبیوں بھی اور انبیاء بھی ہے۔

2۔ جس جمع کا واحد مذکر ہو وہ جمع بھی مذکر استعمال ہوتی ہے خواہ اس کے آخر میں گول تاء (ۃ) ہو۔ جیسے اسامۃ، حمزۃ، رواحۃ وغیرہ۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے