یہ جامعات اور مدارس اسلامیہ جو کہ تاریخ اسلام کی پہلی جامعہ اور پہلے مدرسہ صفہ کی سدا بہار شاخیں ہیں جہاں تشنگان علم اپنے سینوں کو نور علم سے منور کرتے ہیں اور ان گئے گزرے حالات میں بھی اسلام کے یہ قلعے امت اسلامیہ کے سپوتوں کی تربیت منہج نبوت کے مطابق کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں اسی لیے اسلام دشمن عناصر ان مدارس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں ان مدارس اسلامیہ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی مثال تو ان جاہلوں کی سی ہے جن کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے ارشاد باری ہے:

يُرِيدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ (الصف: 8)

یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اس کو مکمل کر کے رہے گا چاہے کافر نا خوش ہی کیوں نہ ہوں۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ:

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

اور علامہ اقبال کے الفاظ میں:

نہیں اقبال نا امید اپنی اس کِشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

انہی چمنستانوں میں سے ایک چمن جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی بھی ہے کہ جس سے جاری ہونے والے چشموں کا پھیلاؤ پچاس کے قریب ممالک تک جا چکا ہے اور اس مادر علمی سے اپنی پیاس بجھانے والے اب اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں مستقل چشموں کی صورت اختیار کرچکے ہیں اس پر ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور ساتھ ہی اس حدیث کے مطابق جس میں آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ

جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔

اسی لیے ہم مشکور ہیں۔ اس مادر علمی کے بانی و مؤسس محترم جناب پروفیسر محمد ظفراللہ رحمہ اللہ کے کہ جن کی کوشش و سعی سے ان کا لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت بن چکا ہے جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں عالم میں پھیلی ہوئی ہیں اللہ ان کو جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے علاوہ ان اساتذہ کہ جن کی رات دن کی محنتوں سے اس چمن میں بہار آئی اور ان محسنین کے بھی مشکور ہیں جن کے تعاون سے اس کا نظام چل رہا ہے۔

ہر سال کی طرح امسال بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ’’الحفل الختامی ‘‘ اختتامی تقریب منعقد ہوئی اس پروقار تقریب کا باقاعدہ آغاز بعد نماز عصر ہوا اس تقریب کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست نماز عصر کے بعد سے مغرب تک اور دوسری نشست مغرب کے بعد سے نماز عشاء تک رہی۔

پہلی نشست کا آغاز: جامعہ سے منسلک مسجد سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں کیا گیا۔

اس کی پیشکش کے لیے محترم استاذ علامہ محمد یعقوب طاہر حفظہ اللہ کی خدمات حاصل کی گئی۔

انہوں نے اس پروقار تقریب کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا بیان کر کے کیا اور ساتھ ہی جامعہ کے ماضی کے جھرکوں  میں جھانکتے ہوئے گویا ہوئے کہ یہ وہی جامعہ ہے جس کی مثال اس گلدستہ کی سی تھی جس میں دنیا کے پینتالیس سے زائد ممالک کے چمن زاروں سے پھولوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہو لیکن آج ان علم کے پیاسوں کو اس چشمے سے سیراب ہونے سے ہمارے حکمرانوں کی پالیسوں اور حکومت کی چکر بازیوں نے روک دیا ہے۔

ہم اللہ کی بارہ گاہ دست دعا بلند کیے ہوئے ہیں کہ اللہ ان بہاروں کو دوبارہ اس چمن کی زینت بنائے علامہ صاحب نے اپنے تمہیدی کلمات کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے جامعہ کے طالبعلم سیف النبی کو تلاوت کلام پاک کی دعوت دی جنہوں نے اپنی خوبصورت آواز سے سامعین کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی پھر عربی زبان میں خطاب کرنے کے لیے پہلے سال کے طالبعلم عبدالمنعم کو دعوت دی انہوں نے التجارۃ مع اللہ (اللہ کے ساتھ تجارت) کے موضوع پر لب کشائی کی۔ ان کے بعد اردو میں خطاب کے لیے چوتھے سال کے طالبعلم عبدالرحمن ثاقب کو دعوت دی جنہوں نے علم کی اہمیت اور دین اسلام میں اس کے مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالی ان کے بعد انگریزی میں خطاب کے لیے دوسرے سال کے طالبعلم انیس کو دعوت دی انہوں نے علم دین اور اہل علم کے مقام پر گفتگو کی۔ طلبہ کی تقاریر کے بعد فضیلۃ الشیخ ابراہیم بھٹی صاحب کو دعوت خطاب دی گئی انہوں نے شعائر اللہ اور اسکی تعظیم کے موضوع پر بڑی ہی فصیح و بلیغ گفتگو کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا جو شخص شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے یہ اس کے متقی ہونے کی دلیل ہے اور شعائر اللہ کو سمجھا جائے اس کی تعظیم اس طرح کی جائے جس طرح اسلام چاہتا ہے۔

شعائر اللہ کی تعظیم کا معنی ہے کہ ان پر عمل کیا جائے جیسے نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ہے ان کوخوش دلی اور خوش اسلوبی سے ادا کیا جائے اور بوجھ نہ تصور کیا جائے۔

آج ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے معاشرے میں کس طرح شعائر اللہ کو پامال کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ جانتے ہوئے کیا جاتا ہے اور آج دین اسلام کی اشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا کردار ہے کیونکہ ہمارا دل تقویٰ سے خالی ہے۔

اسلام دشمن لوگ مسلمانوں کے کردار کو دلیل بنا کر دین اسلام کو بد نام کرتے ہیں کیونکہ ہمارا دامن اجلا نہیں رہا ہمارے کردار کی خرابیوں نے ہمارے دامن کو آلودہ کر دیا ہے شعائر اللہ کی حرمت کو بیان کرنے کے لیے اللہ کے نبی اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا آج کا دن، ذی الحجہ کا یہ مہینہ مکۃ المکرمۃ کی یہ بستی سب شعائر اللہ میں سے ہیں ان کی تعظیم فرض ہے لیکن مسلمان کا مال، اس کا خون، اس کی عزت ان سب سے بڑھ کر عظمت والی اور تعظیم کے لائق ہے اور وہ حرام ہیں لیکن آج ہم نگاہ ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیںہمارے معاشرے میں عزتیں نیلام ہو رہی ہیں ایک دوسرے کا مال لوٹا جا رہا ہے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے کس طرح ان سب کو پامال کیا جا رہا ہے اللہ ہم سب کو شعائر اللہ کی تعظیم اور اپنے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین۔

بھٹی صاحب کی علمی گفتگو کے ساتھ ہی پہلی نشست کا اختتام ہوا اور دوسری نشست کے لیے تمام مہمان جامعہ کے صحن میں تشریف لے گئے جس میں جوق در جوق لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور صحن جامعہ اپنی وسعت کے باوجود تنگی داماں کا شکوہ کر رہا تھا۔ پنڈال کو  خوبصورت بینرز آویزاں کرکے سجایا گیا تھا حاضرین کے لیے کرسیوں پر نشست کا اہتمام کیا گیا تھا اس پر تقریب کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری مجلہ اسوہ حسنہ نے سنبھال رکھی تھی مدیر مجلہ ڈاکٹر مقبول احمد مکی شدید علیل ہونے کے باوجود نگرانی کرتے رہے۔ اور پھر یہ تمام تر ذمہ داری مجلہ کے کارکن اکرام اللہ واحدی اور ان کے رفقاء کار کے کاندھوں پر تھی اس پر وقار تقریب کے یاد گار لمحات کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے لیے جناب عبدالواحد سلفی صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں اور یہ تقریب دنیا کے مختلف ممالک میں براہ راست دیکھی اور سنی جا رہی تھی جس کے لیے مجلہ کے کارکن عبدالحمید صغیر کی محنت تھی اللہ تعالیٰ ان تمام احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اس تقریب کے عکس میں اپنی محنتوں کے رنگ بھرے۔ آمین

جامعہ میں داخل ہوتے ہی سامنے سجے اسٹیج پر نظر پڑتی جس کی پہلی رو میں لگی نشستیں جن میں صدر محفل، مہمان خصوصی اور درس بخاری ارشاد فرمانے کے لیے شیخ الحدیث کی نشستیں واضح تھیں اسٹیج پر صدر مجلس مدیر الجامعہ محترم ڈاکٹر راشد رندھاوا، مدیر مالیات محترم انس محمد، شیخ الحدیث عبدالحمید ازہر، شیخ الحدیث جامعہ ابی بکر ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی اور شیخ الحدیث محمود الحسن حفظہم اللہ تشریف فرما تھے۔ اس نشست میں محمود الحسن صاحب نے ایمان بالرسول کے تقاضے پر گفتگو کی انہوں نے فرمایا علم دو طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی استاذ سے باقاعدہ طور پر پڑھا جائے اور دوسرا یہ کہ بازار میں دستیاب کتب کا مطالعہ کر کے علم حاصل کیا جائے لیکن قربان جائیں اس نبی رحمت محمد الرسول اللہﷺ پر انہوں نے تو کسی مدرسہ میں کسی استاذ کی شاگردی اختیار کی اور نہ ہی اس زمانے میں کتب دستیاب تھیں کہ وہاں سے علم حاصل کرتے بلکہ اس کی گواہی قرآن یوں دیتا ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ

(الشعراء: 192 تا 194)

بس جبریل ہی استاد تھے جو اللہ کی وحی لے کر آتے اور نبیﷺ امت تک اپنے رب کا پیغام پہنچاتے اسلام سے قبل نبی نہ تو پڑھنا جانتے تھے نہ لکھنا پھر اسلام کے آنے کے بعد اتنی عظیم کتاب اور یہ حکمت بھری باتیں کہاں سے سیکھ لی یہ صرف ایک ہی ذریعہ تھا وہ تھی اللہ کی وحی۔ اس لیے ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ جو رسول دے اسے لے لو جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ یہی بات اللہ نے سورۃ حشر میں فرمائی:

وَمَآ آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (الحشر: 7)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 31)

کہہ دیجئے اگر اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری اتباع کرو۔

ایمان بالرسول کا تقاضہ تین باتوں پر مشتمل ہے۔

1۔ حب رسول: حدیث میں آتا ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا حتی کہ میں اس کی جان سے بھی زیادہ اسے محبوب نہ ہو جاؤ۔

2۔ اطاعت رسول: قرآن میں ارشاد ربانی ہے: اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی۔

3۔ اتباع رسول: اطاعت اور اتباع میں فرق یہ ہے کہ اطاعت کا مطلب ہے پیروی کرنا اور اتباع کا مطلب ہے ایسی پیروی کہ جس میں کوئی فرق نہ ہو اس لیے اللہ نے فرمایا: فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ

الشیخ محمود الحسن صاحب کا خطاب نماز مغرب تک جاری رہا۔ ادائیگی نماز کے بعد اگلی نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اس نشست کے اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری فضیلۃ الشیخ محمد طاہر آصف کے مضبوط کندھوں پر تھی۔ تلاوت مرکز اللغہ العربیہ سال دوم کے طالبعلم سیف اللہ نےکی اس کے بعد حمد باری تعالی کے لیے کلیۃ الحدیث سال سوم کے محمد فیصل کو دعوت دی گئی اس کے ساتھ ہی تقریب کے مہمان خصوصی سعودیہ عرب کے نائب قونصل جنرل کراچی محترم راجح سعد السبیعی کی تشریف آوری ہوئی اس موقع پران کو جامعہ میں آمد پر خوش آمدید کہا گیااس کے بعد فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں سے ابو بکر عاصم کو اپنے ساتھیوں کے جذبات کی ترجمانی کے لیے دعوت خطاب دی گئی انہوں نے جامعہ کے اساتذہ، جامعہ کی انتظامیہ اور محسنین کا شکریہ ادا کیا ان کے بعد پہلے سال کے طالبعلم عمار اقبال کو دعوت خطاب دی گئی انہوں نے عربی زبان میں التوحید اولا (توحید سب سے پہلے) کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے کہا توحید کائنات کی سب سے اچھی بات ہے اور یہی توحید ہے کہ ہر آنے والے نبی و رسول نے اپنی امت کو دین کی دعوت دی تو اس کا آغاز توحید سے کیا۔ ان کے بعد اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے فضیلۃ الشیخ عبدالحمید ازہر حفظہ اللہ کو درس بخاری ارشاد فرمانے کے لیے دعوت دی گئی فارغ التحصیل طلبہ میں سے صحیح بخاری کی آخری حدیث پڑھنے کی سعادت یونس ربانی کے حصہ میں آئی پھر فضیلۃ الشیخ نے اپنے درس کا آغاز کیا انہوں نے دین اسلام میں حدیث کی اہمیت، مقام و مرتبہ بیان کرنے کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری کا ان کے ہمعصر علماء کے درمیان کیا مقام و مرتبہ ہے؟ اس پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا آپ لوگ جو آج علماء کی صف میں شامل ہونے جا رہے ہیں یہ ایک بہت عظیم ذمہ داری ہے آپ حاملین شہادت ہیں یہ حاصل کردہ علم آپ پر گواہ ہو گا۔پھر انہوں نے فرمایا حاملین شہادت کے سب سے اہم تین فرائض ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔

1۔ اس شہادت کو علمی طور پر محفوظ رکھنا

2۔ اس علم کے مطابق اس پر عمل کرنا

3۔ پھر اس کو لوگوں تک علمی اور عملی طور پر پہنچانا

ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا (الجمعة: 5)

جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا پھر انہوں نے یہ بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔

اور جب ہمارے پیارے نبی محمدرسول اللہﷺ کو یہ شہادت دی گئی تو آپﷺ نے صرف قرآن کی آیات یا احادیث کو پڑھ کر صحابہ کو نہیں سنایا بلکہ عملی نمونہ بن کے دکھایا اسی لیے رب نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

اور اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن ہی نازل نہیں کیا بلکہ حدیث بھی نازل کی۔ قرآن میں ارشاد باری ہے:

وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

اور حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

أَلَا إِنِّيْٓ أُوتِيْتُ القُرآنَ وَمِثلَهُ مَعَهُ

اور صحیح احادیث کے بارے میں علماء کہتے ہیں جس طرح قرآن نور ہے اسی طرح حدیث بھی نور ہے۔

کچھ لوگ حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں جس طرح قرآن سارا کا سارا ہم تک متواتر پہنچا ہے حدیث میں ایسا کیوں نہیں اس میں صحیح حسن اور ضعیف وغیرہ کی درجہ بندیاں کیوں ہیں اس کا یہی جواب ہے اللہ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے آزمائے۔ جیساکہ تحویل قبلہ کا واقعہ قرآن کے دوسرے پارے میں ذکر ہوا لیکن پورے قرآن میں مسجد اقصی کو قبلہ بنانے کا حکم کہیں بھی نہیں تو پتہ یہ چلا وہ حکم حدیث کی صورت میں ملا تھا آیت قرآنی کی صورت میںنہیں اور یہ حدیث کا علم وہ جلیل القدر علم ہے جس کے لیے اسناد کا علم وجود میں آیا اور اس کے لیے امت محمدیہ کی راہنمائی کی گئی۔ ارشاد باری ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ

(الشعراء: 192 تا 194)

یعنی یہ رب کی طرف سے نازل کردہ ہے لے کر آنے والا جبریل ہے اور جس کے پاس لایا گیا وہ رسول اللہ ہے یہ ہے سند کے سلسلہ کا اشارہ، اللہ نے اپنے فضل خاص سے اس علم کی جانب اس امت کی راہنمائی کی تو ایک عظیم علم وجود میں آگیا۔ قوموں کی اصلاح فلاسفروں اور فلسفیوں کے اقوال سے یا شاعروں کی شاعری سے نہیں ہوتی ان سے انقلاب فرانس اور روس تو آ سکتا ہے لیکن انقلاب مدینہ نہیں آ سکتا جس نے انسان کو انسان بنایا جس نے ابوقحافہ کے بیٹے کو صدیق، خطاب کے بیٹے کو فاروق، عفان کے بیٹے کو غنی اور ابو طالب کے بیٹے کو حیدر کرار رضی اللہ عنہم بنایا۔

اس مختصر سے وقت میں درس بخاری کیا دیا جائے اس کتاب کے لیے ہفتہ بخاری ہونا چاہیے تاکہ اس عظیم کتاب کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جائے یہ کتاب ایک کتاب نہیں بلکہ الجامع ہے اس میں 97 کتابوں کا مجموعہ ہے جو کہ کتاب الایمان سے شروع ہوتی اور کتاب التوحید پہ ختم ہوتی ہے اور ہر کتاب میں کئی ابواب ہیں اور ہر کتاب کا دوسری کتاب سے تعلق ہے اور یہی ذھبی سلسلہ ابواب میں بھی ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے سے بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مربوط ہیں۔ اور یہ دو کلمات جن کے بارے میں آتا ہے زبان پر ہلکے ترازو میں بھاری اور رحمن کے پسندیدہ ہیں ’’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘ یہ سب خوبیاں ان کلمات میں اس وقت پیدا ہونگی جب ان کو پڑھنے والا ان کی عظمت سے واقف ہو اس کو علم ہو ان کے بارے میں اور اخلاص نیت بھی ہو اب دیکھیں کتاب کی آخری حدیث کا ربط و تعلق پہلی حدیث کے ساتھ کس خوبصورتی سے پیدا ہوا وہاں حدیث تھی انما الاعمال بالنیات، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور نیت ہی وہ چیز ہے جو اعمال کو پہاڑ سے زیادہ بھاری کر دیتی ہے اور یہی اگر خراب ہو جائے اعمال کا وزن راکھ کی مانند ہو جاتا ہے درس بخاری کے بعد مہمان خصوصی نائب قونصل راجح سعد السبیعی نے مختصر الفاظ میں دعوت دینے پر جامعہ کا شکر ادا کیا اور پوری دنیا میں جامعہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ترقی کی دعا دی۔ ان کے بعد کلمۃ الجامعہ کے لیے نائب مدیر الجامعہ محترم فضیلۃ الشیخ ضیاءالرحمن المدنی حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی انہوں نے جامعہ کا تعارف اور پھر تمام محسنین وغیر ہ کا شکریہ ادا کیا اور طلباء کے انتظار کی گھڑیوں کو سمیٹتے ہوئے مدیر الامتحانات ڈاکٹر افتخار احمد شاہد کو نتائج کے اعلان کے لیے دعوت دی گئی جنہوں نے نتائج کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی پوزیشن ہولڈر طلبا میں انعامات تقسیم کیے گئے۔

آخر میں مدیر الجامعہ ڈاکٹر راشد رندھاوا نے تمام مہمانوں اور تقریب منعقد کرانے میں محنت کرنے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پھر اس کے ساتھ ہی

اسپیکرز سے اذان عشاء کے کلمات بلند ہو نے لگے نماز کی ادائیگی کے بعد مہمانوں اور جامعہ کے طلبہ کے لیے بہترین عشائیہ کا انتظام کیا گیا تھا جس کے بعد یہ پروقار،عظیم الشان تقریب اختتام پذیر ہو ئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے