يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (البقرة: 172)

اے ایمان والو! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو دی ہیں ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ اور اللہ کی شکر گزاری کرو اگر تم خاص اسی کی غلامی و بندگی کرتے ہو۔

تفسیر و تشریح:

یہاں یہ نکتہ فراموش نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان کے ایمان کی نسبت ہی سے کیوںندا دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت اہل ایمان ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے ایمان کی وجہ سے واقعتاً زندہ ہیں اور اپنی اسی زندگی کی وجہ سے ہی وہ سنتے اور سمجھتے ہیں اور پھر عمل کرنے یا نہ کرنے کی بات ہی ان ہی سے کی جا سکتی ہے کہ جو سنتے اور سمجھتے ہوں اور اس کا مقصود یہ ہے کہ انہیں ایسی باتوں کا حکم دیں جو ان کے حق میں بہتر ہوں اور ایسی باتوں سے روکیں جو ان کے حق میں بری اور نقصان دہ ہوں تاکہ ان کے دل میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہو اور تقویٰ ہی ایسی چیز ہے کہ جس کی بدولت اللہ کی ولایت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:

أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ، لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَیوٰةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَاتَبْدِيْلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (يونس: 62 – 64)

سن لو! کہ جو اللہ والے ہیں انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اس میں ڈرتے رہے ان کے لیے دنیا میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں یعنی خوشخبری ہے اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں یہی تو بڑی کامیابی ہے (کہ اس کی باتیں بدلنے کا خطرہ بھی نہیں)

اس میں اہل ایمان کو ان تمام پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیا ہے کہ جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں اور اس کی حرام کردہ اشیاء ناپاک نجس اور خبیث ہیں چاہے وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب کیوںنہ ہوں (جیسے یورپ کے نصرانیوں کو سور کا گوشت بڑا مرغوب ہے) یا بتوں کے نام منسوب کیے جانے والے جانور۔

(تفسیر احسن البیان دارالسلام ص 59)

اسی طرح یہودیوں اور نصرانیوں وغیرہ نے بعض حلال چیزوں کو اپنے اوپر بغیر اذن الہٰی حرام کر لیا تھا حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے حلال کردہ تھیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرما رہا ہے کہ اگر تم ہمارے ماننے والے ہو اور خاص ہماری عبادت کرتے ہوتو پاک و صاف اور حلال رزق جو ہم نے تم کو دیا ہے کھاؤ پیو اور اپنی طرف سے حرام و حلال نہ بنایا کرو صرف وہ چیزیں جو ہم نے حرام قرار دی ہیں ان کو حرام جانو باقی ہر ایک چیز کو حلال سمجھو۔ جاہلیت کی سابقہ پابندیاں توڑ دو اور ان توہمات سے آزاد ہو جاؤ اور جاہلوں اور بے علموں کی باتوں کو چھوڑ دو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حرام کردہ اشیاء حرام ہیں باقی تمام چیزیں حلال اور پاک ہیں۔ (تفسیر اجملی جلد اول ص 916)

اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد عالی کا یہ نکتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے کھانے کا حکم نہیں دیا ہے کیونکہ کھانے کی بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بنفسہ (یعنی خود) تو حلال ہوتی مگر کسی غلط نسبت یا کسی اور امر کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہیں اسی وجہ سے فرمایا

کلوا من طیبات ما رزقناکم

یعنی ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے جو پاکیزہ و طیب ہیں حلال ہیں وہ کھاؤ اور حرام سے بچو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو حلال کیا ہے مگر مشرکین کے شرک کی وجہ سے کچھ جانور حرام ہو گئے جیسا کہ:

1۔ سائبہ:

وہ اونٹنی جو بتوں کے نام پر چھوڑ دی جائے نہ اس پر سواری کی جائے نہ بوجھ لادا جائے نہ اس کا گوشت کھایا جائے (یہی صورت سانڈوں کے ساتھ بھی کی جاتی ہے)

2۔ حام:

نر اونٹ جس سے کچھ بچے حاصل کر لینے کے بعد بتوں کے نام پر چھوڑ دیں نہ اس پر سواری کریں نہ بوجھ لادیں نہ گوشت کھائیں۔

3۔ وصیۃ:

وہ اونٹنی جس سے پہلی اور دوسری بار لگاتار اونٹنی ہی پیدا ہوئی ہو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے کسی کام میں استعمال حرام کر دیتے ہیں۔

4۔ بحیرہ:

وہ اونٹنی جس کے کان کاٹ دیں یا سوراخ کر کے بتوں کے نام پر چھوڑ دیں۔

امام ابن ابی حاتم سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیںکہ

کلوا من طیبات ما رزقناکم

کا مطلب حلال ہے یعنی حلال رزق۔

اور اسی طرح ابن سعد عمر بن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت میں مراد حلال اور پاکیزہ کمائی ہے نہ کہ پاکیزہ یا پاک کھانا ہے۔

اور ابن جریر ضحاک سے روایت کرتے ہیںکہ اس سے مراد رزق حلال ہے۔ (تفسیر فتح القدیر دارالفکر ج1، ص 170)

سیدنا ابو ہریرہ t فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور بے شک اللہ مومنین کو بھی وہی حکم دیتا ہے جو اس نے اپنے رسولوں کو دیا کہ

يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ   ۝(المومنون51)

اے رسولوں کی جماعت! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو جو کچھ تم کرتے رہے ہومیں اسے خوب جانتا ہوں۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا   ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝(البقرہ168)

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، وہی کھاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ لگ جاؤ۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے

پھر ایک آدمی کا ذکر کیا کہ بڑا لمبا چوڑا سفر کر کے خابہ کعبہ میں آتا ہے بڑا گندہ حال ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور یارب یارب پکارتا ہے اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا اس کا پینا حرام کا اس کا لباس حرام کا اس کی پرورش حرام کی تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول کی جائے گی۔ (اخرجہ احمد و مسلم والترمذی )

اس کے بعد فرمایا کہ

واشکرو للہ

یعنی اللہ کا شکر ادا کرو اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب تم کسی سے کوئی فائدہ حاصل کرو تو پھر اس کا شکریہ ادا کرو اور اس کے احسان مند رہو۔

ان کنتم ایاہ تعبدون

اگر تم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہو اور اس کی عبودیت کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر معاملے میں اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے بے شک وہ کھانے پینے کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو اور اسی کے حکم کے مطابق حرام و حلال کا فیصلہ کرے اپنی من مانی نہ کرے اور حلال چیزوں پر قناعت کرتے ہوئے اس کی عبودیت کا واضح ثبوت دے یہی درحقیقت حقیقی شکر ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بہت ہی تھوڑے بندے ہیں جو اس کے شکر گزار بنتے ہیں جس طرح باقی احکام و عبادات میں اس کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح حلال و حرام میں بالاولی ضروری ہے۔

اس آیت کریم سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پاکیزہ حلال رزق میں سے کھانا چاہیے مگر بغیر اسراف کے۔

2۔ اس کی نعمتوں کو اس کی معصیت و نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔

3۔ اس کی پاکی بیان کرے اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی شکر گزاری اپنے اوپر لازم کرلے۔

4۔ اور توحید پرست بنتے ہوئے صرف اس کی عبادت کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے