1 ۔ ایک دوسرے کو سلام بھجوانا

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يُقْرِئُکَ السَّلَامَ قَالَ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ کَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَکُونُ فِي أُمَّتِي أَوْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ وَذَلِکَ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ [1]

امام نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کرنے لگا کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے، فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے دین میں نئی بات ایجاد کی ہے اگر واقعی اس نے بدعت ایجاد کی ہے تو اسے میری طرف سے سلام مت کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت (یا اس امت) میں صورتیں بگڑیں گی اور زمین میں دھنسایا جائے گا اور سنگباری ہوگی اور یہ سب کچھ منکرین تقدیر کے ساتھ ہوگا۔

زندوں اور مردوں کے سلام میں فرق

عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ طَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ فَجَلَسْتُ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلَا أَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِکَ قُلْتُ عَلَيْکَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللهِ عَلَيْکَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللهِ عَلَيْکَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ إِنَّ عَلَيْکَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ إِنَّ عَلَيْکَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ ثَلَاثًا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلْ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللهِ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللهِ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللهِ [2]

سیدنا ابوتمیمہ ہجیمی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کو تلاش کرنے کے لیے نکلا تو آپﷺ کو نہ پا کر ایک جگہ بیٹھ گیا اتنے میں چند لوگ آئے نبی کریمﷺ بھی انہی میں تھے، میں آپﷺ کو نہیں پہچانتا تھا، آپﷺ لوگوں کے درمیان صلح کرا رہے تھے، جب آپﷺ فارغ ہوئے تو کچھ لوگ آپﷺ کے ساتھ اٹھے اور کہنے لگے یارسول اللہﷺ!میں نے جب یہ دیکھا تو میں بھی کہنے لگا علیک السلام یارسول اللہﷺ (تین مرتبہ اسی طرح کیا)، آپﷺ نے فرمایا: بےشک علیک السلام میّت کا سلام ہے، اسے تین مرتبہ دہرایا، پھر آپﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے ملے تو کہے السلام علیکم و رحمة اللہ پھر آپﷺ نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: وعلیک و رحمة اللہ، (یہ الفاظ تین مرتبہ دُہرائے)۔

سیدنا آدم علیہ السلام اورفرشتوں کا سلام

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ مِنْ الْمَلَائِکَةِ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَکَ تَحِيَّتُکَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِکَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللهِ فَکُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَی صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّی الْآنَ [3]

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان (کے قد) کی لمبائی ساٹھ گز تھی پھراللہ تعالیٰ نے فرمایا :جاؤ اور فرشتوں کو سلام کرو اور جو کچھ وہ جواب دیں اسے غور سے سنو! وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے پاس جا کر کہا السلام علیکم انہوں نے کہا السلام علیک و رحمۃ اللہ انہوں نے لفظ و رحمۃ اللہ زیادہ کیا پس جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا(آدم علیہ السلام ساٹھ گز کے تھے لیکن اب تک مسلسل آدمیوں کا قد کم ہوتا رہا)۔

اور ایک روایت میں ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، اس ارشاد گرامی کے معنی میں علماء کےمابین اختلاف پایا جاتا ہے، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی احادیث صفات میں سے ہے جس کے حقیقی مفہوم و مطلب تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لیے اس بارے میں کوئی تاویل و توجیہ کرنے کے بجائے سکوت ہی بہتر ہے، جیسا کہ اس قسم کے ان اقوال و ارشادات کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے جو متشابہات کہلاتے ہیں علماء سلف اسی قول کی طرف مائل ہیں ۔

جبکہ بعض حضرات اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں، ان کےنزدیک یہاں اللہ کی صورت سے مراد اللہ کی صفت ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفت پر بنایا اور ان کو صفات کے ساتھ موصوف کیا جو صفات کریمہ باری تعالیٰ کا پر تو ہیں ، چنانچہ اللہ نے ان کو، حیّ، عالم، قادر، متکلم، سمیع اور بصیر بنایا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف، شرف و عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ روح اللہ اور بیت اللہ میں روح اور بیت کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس لطیف و جمیل صورت پر پیدا کیا جو اسرار و لطائف پر مشتمل ہے اور جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ اپنے پاس سے عطا کیا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی ضمیر حضرت آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہے یعنی اللہ نے آدم علیہ السلام کو انہی کی صورت پر بنایا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداء آفرینش سے ہی شکل پر تھے دوسرے انسانوں کی طرح ان کی تخلیق اس تدریجی طور پر نہیں ہوئی تھی کہ پہلے وہ نطفہ تھے پھر مضغہ ہوئے پھر جنین ، پھر طفل ، پھر صبی اور پھر پورے مرد ہوئے ، بلکہ وہ ابتداء ہی میں تمام اعضاء و جوارح، کامل شکل و صورت اور ساٹھ گز قد کے پورے انسان بنائے گئے تھے، لہٰذا اللہ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر بنایا سے مرادآدم علیہ السلام کی تخلیق و پیدائش کی حقیقت کو واضح کرنا ہے اور چونکہ دیگر صفات کے برخلاف قد کی لمبائی ایک غیر معروف چیز تھی اس لیے اس کو خاص طور پر ذکر کیا۔

ورحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا اس کے ذریعہ سلام کے جواب کے سلسلے میں ایک تہذیب و شائستگی اور ادب و فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ، چنانچہ افضل طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے اسی طرح اگر کوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے ایک روایت میں ورحمۃ اللہ کے بعد ومغفرۃ کا لفظ بھی منقول ہے لیکن وہ سندًاصحیح نہیں ہے، رہی یہ بات کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے سلام کے جواب میں وعلیک کے بجائے السلام علیک کیوں کہا تو ہو سکتا ہے کہ ملائکہ نے بھی یہ چاہا ہوکہ سلام کرنے میں وہ خود ابتداء کریں ، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب دو آدمی ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سلام میں ابتداء کرنا چاہتا ہے تو دونوں ہی ایک دوسرےکو السلام علیکم کہتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ جواب کے درست و صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جواب سلام کے بعد واقع ہو نہ کہ دونوں ایک ساتھ واقع ہوں جیسا کہ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَکَ سے واضح ہوتا ہے ، اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر دو شخص ملیں اور دونوں ایک ہی ساتھ السلام علیکم کہیں تو دونوں میں سے ہر ایک پر جواب دینا واجب ہو گا۔

حدیث کا آخری جملہ، تقدیم و تاخیر، پر دلالت کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ گز تھا ان کے بعد لوگوں کے قد بتدریج کو تاہ ہوتے گئے پھر جنت میں داخل ہوں گے تو سب کے قد دراز ہو جائیں گے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قد تھا۔

یہ روایت مختصر ہےجبکہ ترمذی شریف میں مفصل بیان کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں، سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو بنایا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و اجازت سے خدا کی حمد کی اللہ نے ان کی حمد کے جواب میں فرمایا: یرحمک اللہ یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ اور پھر فرمایا: آدم فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ جو وہاں بیٹھی ہوئی ہے اور کہو کہ السلام علیکم (چنانچہ آدم علیہ السلام ان فرشتوں کی جماعت کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ علیک السلام ورحمۃ اللہ ۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس آئے یعنی اس جگہ لوٹ کر آئے جہاں پروردگار نے ان سے کلام کیا تھا اللہ نے ان سے یہ فرمایا: (یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو دیں گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: حالانکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے کہ ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو چاہو پسند کر لو، حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ میں نے اپنے پروردگار کے داہنے ہاتھ کو پسند کر لیا اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنےاور برکت والے ہیں اللہ نے اس ہاتھ کو کھولا تو آدم علیہ السلام نے کیا دیکھا کہ اس میں آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی صورتیں ہیں انہوں نے پوچھا کہ پروردگار یہ کون ہیں؟ پروردگار نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد ہے حضرت آدم علیہ السلام نے یہ بھی دیکھا کہ ہر مسلمان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی ہے پھر ان کی نظر ایک ایسے انسان پر پڑی جو سب سے زیادہ روشن تھا جو ان کے روشن ترین لوگوں میں سے ایک تھا آدم علیہ السلام نے اس انسان کو دیکھ کر پوچھا کہ میرے پروردگار یہ کون ہے؟ پروردگار نے فرمایا: یہ تمہارا بیٹا داؤد ہے اور میں نے دیکھاکہ اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ پروردگار اس کی عمر کچھ اور بڑھا دیجیے، پروردگار نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جس کو میں اس کے حق میں لکھ چکا ہوں حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ پروردگار اگر اس کی عمر لکھی جا چکی ہے تو میں اپنی عمر سے ساٹھ سال اس کو دیتا ہوں پروردگار نے فرمایا: تم جانو اور تمہارا کام جانے گویا اس معاملہ میں ہم تمہیں اختیاردیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: کہ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام جنت میں رہے جب تک کہ اللہ نے چاہا اور پھر ان کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام برابر اپنی عمر کے سالوں کو گنتے رہے یہاں تک کہ ان کی عمر نو سو چالیس سال ہوئی تو موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کے لیے ان کے پاس آیا حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم نے جلدی کی میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے فرشتے نے کہا کہ یہ صحیح ہے لیکن آپ نے اپنی عمر کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دیے ہیں حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے نیز حضرت آدم علیہ السلام اس ممانعت کو بھول گئے تھے جو حق تعالیٰ کی طرف سے مشہور درخت کا پھل کھانے سے متعلق تھی اور ان کی اولاد بھی بھولی تھی رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس دن سے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ (ترمذی)

اس کے دونوں ہاتھ بند تھے: ان الفاظ سے اس ہیبت خدائی کو بیان کرنامقصود ہے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے ہاتھوں میں کوئی چیز بند کر کے اس کو چھپا لیتا ہے، اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں، یہ جملہ یا تو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تھا جس کو نبی کریمﷺ نےنقل کیا، یا نبی کریمﷺ کا اپنا کلام ہے۔ بہر صورت حق تعالیٰ کی طرف ہاتھ اور داہنے ہاتھ کی نسبت کی گئی ہے، البتہ علماء نے ان الفاظ کے کئی معنی اور تاویلات بیان کی ہیں ،جو کسی طرح مناسب نہیں ہیں، کیونکہ قرآن وسنّت میں اللہ تعالیٰ کی ذات،صفات اور وجودِ باری تعالی سے متعلق جو کچھ وارد ہو اہے اسے بلا تاویل ماننا چاہئے ،البتہ ہاتھ ہوں یا دیگر اعضاء ان کی کیفیت کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کوہے۔

جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کامشہورقول ہے:

كَمَا قَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ لَمَّا سُئِلَ عَنِ الِاسْتِوَاءِ: الِاسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ وَالْكَيْفُ مَجْهُولٌ وَالْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ وَالسُّؤَالُ عَنْهُ بِدْعَةٌ [4]

ان سے جب عقیدہ اِستویٰ علی العرش سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

اِستویٰ معلوم ہے،کیفیت مجہول ہے،اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور(کیفیت سے متعلق ) سوال کرنا بدعت ہے۔

’’ جو سب سے زیادہ روشن تھا ‘‘ اس عبارت سے ذہن میں ایک خلجان پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس سے تمام انبیاء پر حضرت داؤد علیہ السلام کی فضیلت لازم آتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس موقع پر حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک طرح کی امتیازی شکل و صورت میں ظاہر کیا تاکہ اس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام ان کے بارے میں سوال کریں اور اس سوال پر وہ صورت حال مرتب ہو جو آگے پیش آئی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کا حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دینا اور پھر ملک الموت کے آنے پر اس سے انکار کرنا اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روشن ترین ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تمام صفات کمالیہ میں سب سے ترجیح رکھتے تھے ،لہٰذا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا مصلحت کے پیش نظر اس عالم میں حق تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی شکل و صورت میں ایک طرح کی خاص نورانیت ودیعت فرمائی ہو اور وہ اس عالم میں بھی اس نورانیت سے متصف رہے ہوں ، چنانچہ پیغمبروں میں سے ہر ایک نبی کسی نہ کسی خاص صفت سے متصف رہا ہے اور اس صفت میں ان کو امتیازی حیثیت و خصوصیت حاصل رہی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ محض اس خاص صفت کی بناء اس نبی کو دیگر تمام انبیاءپر فضیلت و فوقیت کا درجہ حاصل ہو۔

’’ میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے‘‘ ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے یہ بات بالکل صحیح کہی تھی، کیونکہ حق تعالیٰ نے ان کی عمر ایک ہزار سال مقرر کی تھی البتہ اس بات کے ضمن میں ان کا مذکورہ انکار پوشیدہ تھا انہوں نے صریحا یہ بات نہیں کہی کہ میں نے اپنی عمر سے داؤد کو کچھ نہیں دیا ،جیسا کہ اس طرح کی بعض صورتیں دیگر انبیاء علیہم السلام سے بھی صادر ہوئی ہیں یا یہ کہا جائے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مذکورہ بیان بطریق نسیان تھا یعنی انہیں یہ یاد نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی عمر میں سے ساٹھ سال داؤد کو دے چکے ہیں اس لیے انہوں نے ملک الموت کے سامنے اس کا انکار کیا۔

تین مرتبہ سلام کرنا

عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ إِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّی تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَی عَلَی قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا [5]

عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جب کوئی بات کہتے تو تین مرتبہ اس کو کہتے، تاکہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور جب چند لوگوں کے پاس تشریف لاتے اور ان کو سلام کرتے، تو تین مرتبہ سلام کرتے۔

حوالہ جات

[1] سنن ابن ماجہ:كِتَابُ الْفِتَنِ ، بَابُ الْخُسُوفِ ،(4061)، [حكم الألباني] حَسَنٌ

[2] جامع ترمذی: أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَقُولَ عَلَيْكَ السَّلَامُ مُبْتَدِئًا،،(2721)، [حكم الألباني] صَحِيحٌ
[3] صحیح بخاری: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ، بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ،(3326)
[4] مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:كِتَابُ الْإِيمَانِ،بَابُ الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، (151)، ج1 ص236
[5] صحیح بخاری: كِتَابُ العِلْمِ، بَابُ مَنْ أَعَادَ الحَدِيثَ ثَلاَثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ،(95)

——–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے