موت العَالِم موت العَالَم

دنیا میں آنا ہی درحقیقت یہاں سے رخت سفر باندھ جانے کی تمہید ہے اس عالم رنگ و بو میں آنے والے ہر نفس نے ایک نا ایک دن موت کے جام کو پینا اور قبر کے دروازے سے داخل ہونا ہے۔

علماء اہل زمین کے لیے اللہ کی نعمت ہیں وہ اندھیروں میں چراغ ہدایت کے رہبر اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حجت ہیں ان سے عقائد و افکار کی گمراہی ختم ہوتی ہے اور قلوب نفوس سے شک کے بادل چھٹ جاتے ہیں وہ شیطان کے لیے باعث غیظ و غضب ایمان کے مخزن اور امت کے ستون ہوتے ہیںزمین میں ان کی مثال ایسے ہے جیسے آسمان پر ستاروں کی مثال ہے خشکی اور تری میں زندگی کے اندھیروں میں ان سے ہدایت حاصل ہوتی ہے انہی میں سے ایک لکھوی خاندان کے چشم و چراغ اور عالم دین مولانا عطاء اللہ لکھوی کے بیٹے حافظ شفیق الرحمن لکھوی رحمہ اللہ ہیں یہ خاندان برصغیر پاک و ہند میں کئی صدیوں سے اپنی دینی علمی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے مشہور و معروف ہے۔

حافظ شفیق الرحمن لکھوی کے والد ماجد الشیخ مولانا عطاء اللہ لکھوی معروف عالم دین اور صرف و نحو کے استاد تھے ان کے تین بیٹے مولانا عبدالرحمن لکھوی، مولانا حبیب الرحمن لکھوی اور مولانا حافظ عزیز الرحمن لکھوی وفات پاچکےہیں اور اب ان کے چوتھے بیٹے حافظ شفیق الرحمن لکھوی کے حالات زندگی پر قلم اٹھایا ہے جو کہ حال ہی میں اس دنیا فانی سے رحلت فرما چکےہیں۔

نام و نسب: شفیق الرحمن لکھوی بن عطاءاللہ لکھوی بن عبدالقادر لکھوی بن محمد شریف لکھوی بن حافظ بارک اللہ لکھوی رحمہم اللہ جمعیا

ولادت: 1924ء لکھو کے ضلع فیروزپور میں پیدا ہوئے۔

تعلیم: آپ نے قرآن پاک بیٹو قدیم ضلع فیروزپور میں حافظ عبیداللہ سے حفظ کیا پھر دینی تعلیم کی طرف رجحان ہوا۔ خاندانی مدرسہ محمدیہ لکھو کے میں ہی اپنے والد ماجد سے ابتدائی کتب اور صرف و نحو کی کتابیں کافیہ، الفیہ وغیرہ پڑھیں۔ بلوغ المرام، مشکوٰۃ شریف اور فارسی کی گلستان و بوستان بھی والد محترم سے ہی پڑھیں۔ اس زمانہ میں ان کے بڑے بھائی مولانا عبدالرحمن لکھوی موضع پٹی ضلع لاہور کے ایک دارالعلوم میں بطور معلم خدمات سرانجام دیتے تھے۔ حافظ صاحب بھی وہاں چلے گئے اور منطق کی کتاب ایسا غوجی اور دوسری کتابیں پڑھیں۔ تقسیم ہند کے بعد خاندانی دارالعلوم جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں منتقل ہو گیا جہاں آپ کے والد ماجد مولانا عطاء اللہ لکھوی اور دیگر جلیل القدر اساتذ ہ کرام فریضہ تدریس انجام دے رہے تھے حافظ صاحب نے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں داخلہ لیا اور وہاں دیگر اساتذہ کے علاوہ فضیلۃ الشیخ مولانا حافظ عبداللہ بڈھی مالوی سے تفسیر جلالین اور صحیح مسلم پڑھی۔ ملتان دارالحدیث میں ایک سال اپنے بڑے بھائی مولانا عبدالرحمن لکھوی سے استفادہ کیا۔ دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڑ لاہور (مدرسہ غزنویہ) میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا عبدہ الفلاح سے حصول فیض کرتے رہے اس وقت دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے مہتمم مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے اور وہ علماء لکھویہ کا بے حد احترام کرتے اور نہایت شفقت فرماتے تھے حافظ شفیق الرحمن کو ہمیشہ وہ حافظ صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے پھر دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ چلے گئے وہاں انہوں نے صحیح بخاری شریف، مؤطا امام مالک، سراجی اور انتہائی درجوں کی کتابیں حضرت مولانا محدث حافظ محمد گوندلوی سے پڑھیں اور سند فراغت حاصل کی۔

درس و تدریس: مروجہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حافظ شفیق الرحمن 1952ء جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کی مسند تدریس پر متمکن ہوئے۔ 9 سال مسلسل خدمات سر انجام دیتے رہے اگست 1961ء میں ان کے برادار صغیر حافظ عزیز الرحمن لکھوی نے رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ غلہ منڈی میں مدرسہ محمدیہ کے نام پر ادارہ کھولا تو انہوں نے تدریس کے لیے حافظ صاحب کو وہاں بلا لیا۔ 2013ء تک انہوں نے ابتدائی کتابوں سے لے کر بخاری شریف تک پڑھایا اب اس مدرسہ کا نام جامعہ ابی ہریرہ اسلامیہ ہے۔ آپ نے بخاری شریف کئی سال تک پڑھائی اس کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب کی تدریس کی بے حد محنتی اور نہایت ذمہ دار مدرس تھے بے شمار علماء طلباء نے کسب علم کیا عالی کردار، بلند اخلاق، عابد و زاہد، تہجد گزار، ملن سار اور سب کے ہمدرد عالم دین تھے، سادگی پسند اور وضع دار تھے آپ نہایت سادہ مخلص اور عظیم اسلاف کے وارث تھے۔

دینی مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے ان کے درس قرآن سے ان کی عملی تجر اور خاص کر حدیث نبوی میں ان کے اشتغال کا پتہ چلتا تھا طلبہ کے لیے ایک محنتی اور مشفق استاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔

آپ کی سکونت چک نمبر 18/1.L میں ہے جو رینالہ خورد سے تین کلومیٹر دور ہے اپنے گاؤں میں بھی وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا نماز فجر کے بعد گاؤں کی مسجد میں درس قرآن دیتے تھے اور نماز عشاء کے بعد درس حدیث کا سلسلہ جاری تھا۔

خطبہ جمعۃ المبارک اسی گاؤں میں ارشاد فرماتے تھے ان اوصاف کے حامل علماء سے یہ معاشرہ خالی ہو رہا ہے قدیم وضع کے صالحیت شعار لوگ بہت کم باقی رہ گئے ہیں۔

اولاد: 1۔ پروفیسر خلیق الرحمن۔ یہ درس نظامی کے فاضل تھے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے بہت اچھے واعظ اور مقرر تھے۔

عین عالم جوانی میں 5 ستمبر 2004 کو وفات پاگئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

2۔ مولانا رفیق الرحمن لکھوی۔ فاضل درس نظامی و مدینہ یونیورسٹی اور آج کل شارجہ میں درس و تدریس میں مصروف عمل ہیں۔

بیماری اور وفات: بڑھاپے کی وجہ سے کمزور تھے چند ماہ صاحب فراش رہے پھر آخر کار معینہ وقت آ پہنچا جس میں لمحہ بھر کی تاخیر و تعجیل نا ممکن ہے۔

موت برحق ہے دنیا میں کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اٹھ جانے سے ایک دنیا متاثر ہوتی ہے اور ایک عالم کی موت، موت العَالِم موت العَالَم کے مترادف ہوتی ہے۔

موت اس کی ہے کرے جس پر زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

27 مئی 2014ء بمطابق 27 رجب 1435ھ کو صبح 30:3 بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

نماز جنازہ: آپ کے جنازہ میں کثیر تعداد اہل علاقہ، علماء کرام اور شاگردوں کی تھی جس میں امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید صاحب ، حافظ عبدالسلام بھٹوی اور جماعت کے اکابر علماء کرام نے شرکت کی۔ پہلی نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد آپ کے بھتیجے الشیخ حفیظ الرحمن لکھوی مدیر جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور نے پڑھائی اور پھر دوسری نماز جنازہ مغرب کے بعد آپ کے بھیجتے حافظ حفظ الرحمن لکھوی مدیر جامعہ ابی ہریرہ رینالہ خورد نے پڑھائی یقیناً اس وقت یہ علاقہ کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے صاحبزادوں کو ان کا صحیح جانشین بنائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے