قائد، لیڈر یا رہنما اس کی صفات، کردار اس کا ماضی اور حال کیسا ہونا چاہیے عمیق نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہےکہ قائد سچا، امانتدار، دیانت دار، ایثار، قربانی کا جذبہ رکھنے والا ہونا چاہیے اس کا ماضی و حال سفید لٹھے کی طرح صاف شفاف اور بے داغ ہو، وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والا۔ منافقت سے کوسوں دور وہ خود اعتمادی کا مظہر ہو جو وہ کہتا ہو سب سے پہلے وہ خود کرکے دیکھاتا ہو، وہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے ختم کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو جو خوشامد اور خوشامدیوں سے دور بھاگتا ہو وہ ایسا صادق و امین قابل بھروسہ جس کی سچائی، خود اعتمادی کی اپنے تو اپنے اغیار بھی گواہی دیئے بغیر نہ رہ سکتے ہوں قائد قوت ایمانی سے سرشار ہو عقل سلیم کا مالک ہو، حکمت و دانائی اور ہمہ گیر شخصیت کا مالک  سادگی و پاکیزگی، تجملات دنیا سے بے اعتنائی، زہد و تقویٰ، پرہیز گاری، خوف الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی پر خلوص عبادت کی زندہ جاوید مثال ہو۔مثبت سوچ و عمل کا حامل اور صاحب بصیرت ہو علم و عمل کا بحر بیکراں ہو، انصاف پسند اور غیر جانبدار اپنے ذاتی احساسات، جذبات اور تعصبات کو اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دیتا ہو۔ حقائق کو منطق کے ترازو میں تولنے اور ہر ممکنہ حل پر غور و فکر اور درست فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
قائد، بے غرض ہو یعنی اپنے کسی کارکن کے اچھے کام کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لے بے غرضی کاایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسروں کا نقصان کرکے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرے قائد بہادر دلیر اور نڈر ہو باہمت و حوصلہ ہو کیونکہ حوصلہ وہ صفت ہے جو خوف و ڈر کی صورت میں بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ مخالفین اور خطرات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔ قوت فیصلہ کی حامل شخصیت ہو وہ تمام حقائق کی جانچ پڑتال کر کے بر وقت فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو لیڈر کی عمومی ظاہری وضع قطع، چال ڈھال اور انداز و اطوار میں غرور و تکبر نہ ہو۔ قائد کو چاہیے کہ دوران گفتگو بیہودہ الفاظ اور ناشائستہ زبان ہرگز استعمال نہ کرے۔
ان تمام مذکورہ بالا اوصاف کا جائزہ لیں تو یہ رسول اللہﷺ جو کہ قائداعظم، امام اعظم اور ہر مسلمان کے لیے رول ماڈل اور اسوہ حسنہ ہیں ان میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جن کا اظہار سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت کیاتھا جب آپﷺ کو تاج نبوت سے سرفراز کیا جا رہا تھا

فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ (لَتَصْدُقَ الحَدِیْثَ) وَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ، (مسند أحمد:43/ 53)

یعنی اللہ کی قسم !آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں،آپ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
قائد ایسا ہونا چاہیے جو نہ خود دھوکے باز ہو نہ دوسروں سے دھوکہ کھائے قیصر کا سفیر مدینہ الرسولﷺ میں آکر لوگوں سے دریافت کرتا ہے کہ تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا ہمارے ہاں بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ امیر ہوتا ہے اور ان کامحل نہیں ہوتا، ان کا رہن سہن، بودو باش عام لوگوں کی طرح ہوتی ہے اس نے پوچھا تو پھر تمہارا امیر اب کہاں ہے؟ اسے بتایا گیا وہ تمہیں مسجد نبوی میں مل جائیں گے اس نے دیکھا امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد بنوی میں ننگی زمین پر اپنے بازو کو سرہانا بنائے ہوئے لیٹے ہوئے ہیں وہ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگیا اس نے دوسرا سوال کیا کہ تمہارے امیر کو حفاظتی دستہ کی ضرورت نہیں اسے بتایا گیا ہرگز نہیں کیونکہ ہمارا امیر نہ دھوکہ دیتا اور نہ دھوکہ کھاتا ہے۔
دور حاضر میں جب ہم لیڈروں اور قائدین کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کی زندگیوں میں کھلا تضاد نظر آتا ہے ان میں امانت، دیانت اور صداقت کہیں بھی نظر نہیں آتی دعوی تو عوام کی فلاح و اصلاح کا کیا جاتا ہے مگر طریقہ اغیار کا اپنایا جاتا ہے۔
ہمارے نام نہاد قائدین خطاب کے دوران گیس غبارے پھٹنے سے شدید خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور قائد صاحب خطاب روک دیتے ہیںاور کرسی سے اٹھ کر بھاگنے لگتے۔سروں سے کفن باندھ کر نکلنے والے بلٹ پروف جیکٹس نہیں پہنتے نہ ہی بلٹ پروف کنٹینر میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔شہادت کے متمنی اور سب سے پہلی گولی کھانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ اور اسی طرح ایک اور شخص بھی ’’قائدانہ‘‘ صلاحیت کےحامل ہونے کا دعویدار ہے لیکن قول وکردار میں کسی اوباش کی عکاسی نظر آتی ہے۔ الغرض ان میں سے ہر ایک کا مطمع نظر کچھ خاص مفادات ہیں۔ اسلام کیلئے تڑپ، محبت، دکھ تو کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اسلام کے اصولوں کے برعکس کرتے نظر آتے ہیں گویا ان کے ’’انقلاب ‘‘یا ’’آزادی‘‘سے مراد ان کی خود ساختہ’’ آزادی ‘‘و’’ انقلاب ‘‘ہے، حقیقی نہیں یعنی انہیں اسلام نہیںبلکہ اسلام آباد چاہیے !!  !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے