ہمارے گزشتہ مضمون کی گفتگو سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ مومن صاحبِ عقل ا ورصاحبِ بصیرت ہوتا ہے اور اس کی بنیاد ایمان ہی ہے۔اور کافر مومن کے مقابلے میں عقل و بصیرت میں انتہائی پرلے درجے پر ہوتا ہے ۔اسی طرح کسی مومن میں جس حد تک ایمان میں کمی ہوگی اسی حد تک اس کی بصیرت میں کمی ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ قرب ِقیامت اہل ایمان جس تیزی سے فتنوں کا شکار ہوتے جائیں گے اور ایمان سے دور ہوتے جائیں گے ظاہر سی بات ہے کہ وہ اسی حد تک عقل و شعور اور بصیرتِ صحیحہ سے بھی دور ہوتے جائیں گے ۔اور اس کی بنیاد ایمان میں کمی ہی ہوگی۔ نصوصِ شریعہ میں بڑے واضح انداز میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ قربِ قیامت انسانی بصیرت اور فہم میں بڑی کمی ہوگی ۔ہم اس مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک حصہ جس سے واضح ہوگا کہ عوام الناس بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور دوسرا حصہ جس میں اس بات کو بیان کیا جائے گا کہ حکمران بھی ایسے مسلط کردئیے جائیں گے کہ جوعقل و شعور سے بالکل دور ہوں گے۔

قرب قیامت لوگوں کی بصیرت اور شعور کی کیفیت:

 ہم اس باب میں سب سے پہلے ایک حدیث پیش کرتے ہیں :سیدنا ابوھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ بادروا بالا عمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مو منا ويمسي كافرا ا و يمسي مو منا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا‘‘(صحیح مسلم:118)

یعنی :’’ قرب ِقیامت ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گااور شام کو مومن ہوگا اور صبح کافر ہوجائے گا۔ آدمی اپنے دین کو پیسوں کے بدلے بیچ دےگا۔‘‘
اب سوال اٹھتا ہے کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیںکہ دور جیسے آگے جارہا ہے، ترقی ہورہی ہے، دنیا چاند پر پہنچ گئی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بصیرت اس حد تک ختم ہوجائےگی ایک ہی دن میں مختلف دین کو قبول کیا جارہا ہے ۔کیا وجہ ہے؟دوسری حدیث میں جواب موجود ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’ إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فا فتوا بغير علم فضلوا وا ضلوا‘‘ (صحیح بخاری:100، صحیح مسلم: 2673)

یعنی: ’’ علم اٹھ جائے گا اور اللہ تعالی علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالے گا۔بلکہ علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ اپنے رؤساء اور پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے ان سے مسائل پوچھیں جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘
ان دونوں احایث کو سامنے رکھنے سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ اہل علم سے تعلق اور مصاحبت بصیرت صحیحہ کاسبب ہے۔اور قربِ قیامت جیسے جیسے علماء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ذریعےسے علم اٹھتا جائے گا، لوگ بھی بصیرت صحیحہ سے دور ہوتے چلے جائیں گے،حتی کہ لوگ جہلاء کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے فتاوی پوچھیں گے نتیجتاً وہ گمراہی کی دلدل میں گرتے چلے جائیں گے۔آج بالکل یہی کیفیت بنتی جارہی ہے کہ آج میڈیا پر جن لوگوں سے دینیات کے مسائل پوچھے جارہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مساجد کے منبروں نے قبول نہیں کیا،جو شاید دنیاوی امور میں علماء سے فائق ہوں لیکن دینی رہنما ہونے کے قطعاً حق نہیں رکھتے۔آج دینی بصیرت کے معدوم ہونے کے اسباب میں سے بڑا سبب یہی ہے کہ علماء ربانیین بڑی تیزی سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور پھر خواہش پرست لوگ بڑی تیزی سے بمصداقِ ’’ نیم حکیم خطرۂ جان ‘‘ لوگوں کے ایمان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے ہمیں محفوظ رکھے۔(آمین)
بہرحال ان دونوں احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی صورت حال کی طرف چودہ سو سال پہلے ہی نشاندہی فرما دی تھی کہ کس طرح لوگ بصیرت صحیحہ سے دور ہوتے چلے جائیںگے۔بلکہ قیامت کے قریب لوگوں کی عدم ِشعوری کوبیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’سيخرج في ا خر الزمان قوم ا حداث الا سنان سفهاء الا حلام يقولون من خير قول البرية يقرءون القرا ن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم ا جرا لمن قتلهم عند الله يوم القيامة‘‘

یعنی: ’’عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم:1006)
اس حدیث میں بڑے واضح انداز میںنبی ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ بظاہر بڑی اچھی بات کرنے والے نوجوان ہونگےدراصل وہ بے وقوف ہونگے۔یہ لوگ بھی صحیح فہم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے دین میں غلو و افراط کرکے راہ ہدایت سے بھٹک جائیں گے ۔
گویا کہ پہلا گروہ (جس کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا کہ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے)جہالت کی وجہ سے دین میں تفریط اور کمی و تساہل کا شکار ہوگا اور ایمان سے محروم ہوجائے گا اور اسی طرح دوسرا گروہ (جس کا ذکر مذکور ہ حدیث میں ہوا کہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا)بھی اپنی جہالت اور صحیح فہم نہ ہونے کی وجہ سےافراط کا شکار ہوکر گمراہی کی دہلیز پر آکھڑا ہوگا۔ اس لئے صحیح فہم یہی ہے کہ راہ اعتدال کو اختیار کیا جائے اور افراط و تفریط اور جذباتی نعروں اور رویوں سے بھی گریز کیا جائے اور بلاوجہ کے تساہل سے بھی حد درجہ دور رہا جائے۔
ایک اور حدیث میں مزید صراحت سے قرب قیامت عقل و شعور کے فقدان کا ذکر کیا گیا ہے ،چناچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (قربِ قیامت ایسا دور آئے گا کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے اٹھالی جائے گی اور اس کا ایک دھندلا سا نشان رہ جائیگا۔ پھر سوئے گا تو باقی امانت بھی اس کے دل سے نکال لی جائے گی۔ تو اس کانشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا۔ جیسے چنگاری کو اپنے پاؤں سے لڑھکائے اور وہ پھول جائے اور تو اس کو ابھر ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے، لیکن کوئی امانت کو ادا نہیں کرے گا یہاں تک کہ کہا جائیگا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائیگا کہ کس قدر عاقل ہے کس قدر ظریف ہے اور کس قدر شجاع ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان نہ ہو گا اور ہم پر ایک زمانہ ایسا گزرچکا ہے کہ کسی کے ہاتھ خرید و فروخت کرنے میں کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی۔ اگر مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام اور نصرانی ہوتا تو اس کے مدد گار گمراہی سے باز رکھتے لیکن آج کل فلاں فلاں (یعنی خاص) لوگوں سے ہی خرید وفروخت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ)
اس حدیث میں واضح انداز میں رسول اللہﷺ نے یہ خبر دی کہ قرب قیامت میں امانت بھی ختم ہوجائے گی اور بصیرت بھی ختم ہوجائے گی۔اعاذنا اللہ منھا

قربِ قیامت بے وقوف حکمران :

قیامت کے قریب عام انسانوں کے شعور و بصیرت کے منظر کے بعد ہم ذیل میں چند دلائل پیش کریں گے ،جن سے یہ ثابت ہوگا کہ قیامت کے قریب بےوقوف قسم کے حکمران مسلط کردئیے جائیںگے۔چناچہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع ابن لكع(جامع ترمذی:2209)

یعنی : ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا میں سب سے زیادہ سعادت والا اسے نہ سمجھ لیا جائے جو کمینہ ہو اور کمینے کا بیٹا ہو۔‘‘
اسی طرح ایک روایت میں فرمایا:

بادروا بالموت ستا إمرة السفهاء وكثرة الشرط وبيع الحكم واستخفافا بالدم وقطيعة الرحم ونشوا يتخذون القران مزامير يقدمونه يغنيهم وإن كان ا قل منهم فقه (مسند احمد: 494/3، سلسلۃ الصحیحۃ : 979  )

ترجمہ : ’’چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت کی تمنا کرو، بےوقوفوں کی امارت ،پولیس کا زیادہ ہونا، فیصلے کا بیچنا، انسانی خون کو ہلکا سمجھ لینا، قطع تعلقی کا عام ہونااور ایسے لوگوں کو (منبر و اسٹیج وغیرہ پر زیادہ بڑے عالم دین کے موجود ہونے کے باوجود )آگے کرنا تاکہ وہ گاگاکر قرآن سنائیں، حالانکہ وہ علم میں کم ہونگے۔‘‘
اس حدیث میںفرمایا گیا کہ دعا کرو کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلےتمہیں موت آجائے۔ان میں سے ایک چیز بے وقوف اور فہم وبصیرت سے عاری لوگوں کی حکومت۔جیسا کہ دور حاضر میں اس کے مظاہر اور نقصانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے امارت سفھاء سے اللہ کے رسول ﷺ نے پناہ مانگی ،چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرۃ سے فرمایا:

اعاذك الله من إمارة السفهاء۔ قال: وما إمارة السفهاء؟ قال: ا مراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وا عانهم على ظلمهم فا ولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا علي حوضي (صحیح ابن حبان:4514 مسند بزار:1609 )

 دیگر کتب میں یہ روایت کعب بن عجرۃ کی مسند سے بھی موجود ہے۔
ترجمہ :’’ اللہ تعالی تجھے بے وقوفوں کی امارت سے بچائے۔کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : بے وقوفوں کی امارت کیا ہے؟ فرمایا: میرے بعد ایسے امراء ہونگے جو میری رہنمائی کی اقتداء نہیں کریں گے اور نہ ہی میری سنت پر چلیں گے۔اور جو ان کے کذب کے باوجود ان کی تصدیق کریں گے اور ظلم میں ان کی مدد کریں گےایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔اور نہ ہی وہ میرے حوض پر آسکیں گے۔اور جو لوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کریں گےاور ظلم پر ان کی مدد نہیں کریں گے یہی لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔اور یہ میرے حوض پر بھی وارد ہونگے۔
اس روایت پرصحیح ابن حبان میں باب قائم ہے کہ

ذکر تعوذ المصطفی ﷺ من امارۃ السفھاء

یعنی نبیﷺ کا بے وقوفوں کی امارت سے پناہ مانگنا۔اس روایت میں نبیﷺ کے الفاظ ہیں ’’اعاذنا اللہ ‘‘ یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں۔
اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ جھوٹ بولنے والے اور ظالم ہونگے ۔حکمرانوں کا جھوٹ بولنا اور اور جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر کرسی حاصل کرنا یہ عقل مندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک روایت میں جھوٹ بولنے والے حکمران کے لئے وعید بیان کی گئی ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم قال ا بو معاوية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب ا ليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر‘‘ (صحیح مسلم :107 )

ترجمہ:’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گااور نہ ہی انہیں پاک و صاف کرے گا اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(1) بوڑھا زانی (2)جھوٹا بادشاہ(3) اورتیسرا شخص تکبر کرنے والامفلس ۔‘‘
مذکورہ روایت میں اس قدر سخت وعید کی وجہ یہی ہے کہ ان تینوں قسم کے افراد کو دوسروں کی بہ نسبت یہ تینوں گناہ بالاولیٰ زیب نہیں دیتے ،اور دوسروں کی بہ نسبت انہیں تو ان گناہوں سےزیادہ بچنا چاہئے تھا ،کیونکہ یہ ان کے لئے ان گناہوں سے دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا۔اسی لئے ان کے لئے مذکورہ گناہوں کے حوالے سے سزا بھی خصوصی اور زیادہ سخت ہے۔اور یہ بہت بڑی سزا ہے کہ اللہ تعالی نہ ان سے کلام کرے اور نہ ہی ان کاتزکیہ کرے اور پھر ان کے لئے درد ناک عذاب بھی ہے۔
یہ تینوں گناہ مذکورہ تینوں قسم کے افراد کی بے وقوفی کو بھی واضح کرتےہیں اور بالخصوص جھوٹا بادشاہ جیسا کہ پچھلی حدیث میں صراحت کے ساتھ بے وقوف بادشاہ کے اوصاف میں دروغ گوئی کابھی بیان ہوا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی یہ پیشین گوئی آج من و عن پوری ہوتی جارہی ہے،اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جمہوریت کے راستے سے انتہائی نااہل اور عدیم البصیرت قسم کے افراد عہدوں کے وارث بن جاتے ہیں اور ان عہدوں کے حصول کے لئے انہیں دروغ گوئی سمیت دھوکہ ،فراڈ ،رشوت اور نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ۔اور پھر جس طرح سے یہ عہدوں کو حاصل کرتے ہیں ،کیسے یہ ممکن ہے کہ ان گناہوں اور معاشرے کی بربادی کے بنیادی اسبا ب کو ختم کریں،نتیجتاً ایسے جھوٹے مکار اور عدیم البصیرت حاکم کی وجہ سے برائیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید جنم لیتی ہیں۔اور ہر خاص و عام یہ بھی جانتا ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اکثریت اسی قبیل کی ہے ،بہت ہی کم لوگ ہونگے جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا ہوگا ؟؟
بہرحال ایسے لوگوں کی امارت قیامت کی علامات میں سے ہے۔لہٰذا بصیرت صحیحہ کے حصول کے لئےدعائیں بھی کرنی چاہییں اور اہل علم اور اہل بصیرت سے تعلق بھی رکھا جائے۔اور رسول اللہﷺ کی طرح پناہ بھی مانگنی چاہئے۔جیساکہ اس حوالے سے حدیث گزری۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ امارت سفھاء کا مسئلہ صرف بے وقوفوں کی امارت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ بھی آجاتا ہے ،کیونکہ قرآن مجید میں فرمان الہی ہے :

وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ     (الانعام: 129)

ترجمہ : اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنا دیں گے کیونکہ وہ (مل کر ہی) ایسے کام کیا کرتے تھے۔
اس آیت کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ایک معنی یہ ہے کہ جہنم میں باہم ظالم ایک دوسرے کے ساتھ ہونگے ۔دوسرا معنی دنیا میں بھی ظالم و کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔اور تیسرا معنی ظالم لوگوں پر اللہ ظالم لوگ ہی مسلط کردیتا ہے ،خواہ وہ حکمرانوں کی صورت میں یا کسی اورصورت میں ۔چناچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ومعنى الآية الكريمة كما ولينا هؤلاء الخاسرين من الإنس تلك الطائفة التي أغوتهم من الجن كذلك نفعل بالظالمين نسلط بعضهم على بعض ونهلك بعضهم ببعض وننتقم من بعضهم ببعض جزاء على ظلمهم وبغيهم

ترجمہ : ’’آیت کامطلب یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا، اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں، اور بعض کو بعض کے ذریعے سے ہلاک کردیتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )
خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں میں سے جو بھی معنی مراد لیا جائے تینوں کے عموم اور وسعت میں ظالم حکمرانوں کا تسلط بھی آجاتا ہے اور تیسرے معنی میں تو سب سے زیادہ واضح ہے نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جو معنی بیان کیا ہے ۔لہٰذا اس آیت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جیسے لوگ ویسے حکمران ،یعنی حکمرانوں کی بے وقوفی لوگوں کی اکثریت کی بے وقوفی کی دلیل ہے ، ہم اس استدلال کی بنیاد اسی آیت مبارکہ پر رکھ رہے ہیں ،البتہ اس مضمون کی ایک ضعیف روایت بھی ہے

[كما تكونوا يولى عليكم]

ترجمہ :’’جیسے تم خود ہوگے ویسے ہی حکمران تم پر مسلط کردئیے جائیں گے ۔‘‘(سلسلۃ الضعیفۃ للالبانی :320)
اس روایت کوسنداً ضعیف ثابت کرنے کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں :

ثم إن الحديث معناه غير صحيح على إطلاقه عندي، فقد حدثنا التاريخ تولي رجل صالح عقب أمير غير صالح والشعب هو هو! .

 یعنی : اس حدیث کا معنی بھی مطلق طور میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ غیر صالح آدمی کے بعد صالح آدمی امیر بن جاتا ہے۔حالانکہ عوام تو وہی کی وہی ہے۔
جہاں تک علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس کلام کا تعلق ہے، اس حدیث کے سنداً ضعیف ہونےمیں ہم بھی متفق ہیں، لیکن اپنی ناقص العلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ ضعیف ہے ،لیکن مذکورہ قرآنی آیت اور صحیح احادیث کو سامنے رکھا جائے تو مفہوم یہ نکلتا ہےکہ ایسا قیامت کے قریب ہوگا کہ لوگوں کی اکثریت فہم و دانش سے دورہوجائے گی اور ایسے ہی حکمران ان پر مسلط کردئیے جائیں گے۔اس معنی کی روایات سے یہی مفہوم مراد لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ اس کا تعلق قربِ قیامت سے ہے،لہذا ان کا پچھلی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں،مزید یہ کہ دور حاضر میں ایسے مناظر بکثرت دیکھے جارہے ہیں۔واللہ اعلم –

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے