زمین وآسمان کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے ، اپنی ان دو عظیم الشان مخلوقات کے جس حصے کو وہ چاہتا ہے عزت و برتری عطا فرماتا ہے ، اور جس حصے کو چاہتا ہے اپنے غیظ و غضب اور نحوست کے نزول کا مقام بنادیتا ہے ، چنانچہ خطہ ارض پر اس نے بعض مقامات کو دیگر مقامات پر برتری عطا کر رکھی ہے ، جن میں سرفہرست مکة المکرمة اور مدینة المنورة یہ دو شہر ہیں ، ان دو مقامات کی افضلیت کے کئی پہلو ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

فضائل مکہ:

دنیا کا قدیم ترین اور پہلا شہر مکہ ہے:

روئے زمین پر سب سے پہلے آباد ہونے والا شہر مکہ ہے یہیں سے انسان کی آبادی زمین کے دیگر حصوں تک پہنچی، چنانچہ اللہ تعالی نے مکہ کی قدامت کو اشارتا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (آل عمران:96)

انسانوں کے لئے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ جو مکہ میں ہے، جو سب جہاں والوں کے لئے برکت اور ہدیت کا باعث ہے۔

یعنی زمین پر انسانوں کے لئے بنائی جانے والی پہلی عبادت گاہ مکہ میں بنائی گئی جو کہ البیت العتیق ،بیت اللہ ، الکعبۃ ، اور المسجد الحرام کے نام سے معروف ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ مکہ پہلا شہر ہے جسے انسانوں نے آباد کیا اور اس میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کے لئے ایک گھر کی تعمیر کی ، اس سے قبل انسانوں کے لئے کوئی گھر نہ تھا نہ عبادت خانہ نہ دولت خانہ ، جبکہ انسانیت اپنے آغاز میں اللہ تعالی کی توحید اور اپنے مقصد حیات “یعنی اللہ کی عبادت” کی قائل و فاعل تھی۔

نبی ﷺ نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے ، چنانچہ ابو ذر غفاری نے کہا کہ

: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ (صحیح مسلم)

میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ:زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:مسجد حرام۔

اسی لئے مکہ کو “ام القری” یعنی تمام علاقوں کی ماں (بنیاد) کہا گیا ، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا

یہ مبارک کتاب ہم نے نازل کی تاکہ آپ اسکے ذریعے ام القری اور اسکے اردگرد رہنے والوں کو ڈرائیں۔(الانعام:92)

یعنی شہر مکہ دیگر تمام شہروں اور علاقوں کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور بنیاد سب سے پہلے رکھی جاتی ہے۔

مکہ کی قدامت پر قدیم صحیفے تورات ، انجیل وغیرہ اور بت پرستوں کی مقدس کتابیں بھی شاہد ہیں۔(ملاحظہ ہو:تاریخ المکۃ المکرمۃ،از محمد عبد المعبود،ج:1 ،ص:114تا132)

اشکال:ابراہیم نے جب ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا تو وہاں کوئی انسانی آبادی نہ تھی ، اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مکہ پہلا شہر نہیں ۔

ازالہ:مکہ ہی پہلا شہر ہے جیسا کہ گزشتہ آیات سے واضح ہے ، ابراہیم کے زمانے میں اسکے غیر آباد ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پہلے کبھی آباد نہ ہوا ہو، ممکن ہو نوح کے طوفان سے پہلے آباد ہو لیکن طوفان میں اجڑ گیا ہو اور پھر ابراہیم کے ذریعے دوبارہ آباد کیا گیا ہو ، کیونکہ نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹہری تھی جو کہ عراق میں ہے۔

دنیا کا سب سے افضل شہر مکہ ہے:

قدیم ہونے کے ساتھ مکہ سب سے افضل شہر بھی ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اس شہر کی بار بار قسم اٹھائی جیسا کہ

mوَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (والتین:1تا3)

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور اس امن والے شہر کی۔

mلَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد:1)

میں اس شہر کی قسم اٹھاتا ہوں۔

جد الانبیاء ابراہیم نے مکہ کے لئے برکت و امن کی دعائیں کیں اور اسے حرمت والا شہر قرار دیا ، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آَمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آَمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ (البقرۃ:126)

یاد کرو جب ابراہیم نے کہا :اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنادے اور اسکے اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے باشندوں کو پھلوں سے رزق عطا فرما۔

اللہ تعالی نے انکی دعا کو قبول فرمایا اور مکہ کو امن کا گہوارہ اور برکت والا شہر بنادیا چنانچہ اہل مکہ کی بابت ارشاد فرمایا:

mلِإِيلَٰفِ قُرَيْشٍ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآَمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ

قریش کو سردی و گرمی کے سفروں سے مانوس کرنے کی بنا پر انہیں چاہیئے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں امن دیا (سورۃ قریش)

mأَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آَمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا (القصص:57)

کیا ہم نے انہیں امن والا حرم عطا نہیں کیا جسکی طرف ہر طرح کے پھل لائے جاتے ہیں یہ رزق ہم نے دیا۔

mأَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آَمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنکبوت:67)

کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن والا بنادیا جبکہ انکے اردگرد سے لوگ لوٹ لئے جاتے۔

mوَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آَمِنًا (آل عمران:97)

اس میں جو بھی داخل ہوا وہ امان میں آگیا۔

نیز (سورۃ والتین آیت نمبر:3) بھی ملاحظہ ہو۔

نبی ﷺ نے بھی مکہ کی افضلیت کو بیان کیا چنانچہ مكہ سے ہجرت کرتے وقت آپکی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:

وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَيَّ وَاللهِ لَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ

اللہ کی قسم تو زمین کا سب سے بہتر حصہ ہے اور اللہ کی سب سے پسندیدہ ہے ، اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔ (سنن ترمذی،المناقب،فضل مکۃ،رقم: 3860-الصحیحۃ،تحت رقم:2857)

واضح ہو کہ “خیر” اور “احب” دونو اسم تفضیل کے صیغے ہیں جو مکہ کی افضلیت پر دلالت کرتے ہیں۔

نیز آپ ﷺ نے مکہ سے اپنی دلی وابستگی اورمحبت کا اظہاراسطرح کیا :

ما أطيبك من بلد وأحبك إلي ولولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك

تو کس قدر عمدہ شہر اور مجھے کسقدر محبوب ہے ، اگر تیرے باشندے مجھے تجھ سے نہ نکالتے میں تیرے علاوہ اور کہیں نہ رہتا۔ (سنن ترمذی،رقم:3861)

مکہ بے شمار مقدسات کا شہر ہے:

مکہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن میں تقریبا 50 مرتبہ اسکا ذکر خیر آیا ہے ،اوراس میں اسلامی تاریخ کی بے شمار مقدسات پائی جاتی ہیں ، یہاں 300 سے زائد انبیاء و رسل کی قبریں ہیں ، یہیں صفا و مروہ ، مقام ابراہیم ، چاہ زمزم ہے ، اللہ نے اسے مناسک حج کے لئے منتخب فرمایا ، جنت کا پتھر حجر اسود بھی اسی شہر میں ہے ، یہی مولد و مسری النبی ﷺ ، مھبط وحی ، قبلۃ المسلمین ، مرکز اسلام ہے ، اسکے قبرستان جنت المعلاۃ میں بے شمار صحابہ ، شہداء ، اولیاء محو استراحت ہیں ، اسکی سرحدوں پر فرشتوں کا پہرہ ہے ، اس میں دجال داخل نہ ہوگا ، سب سے بڑھ کر مسجد حرام مکہ میں ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔

مکہ حرمت والا شہر ہے:

اللہ تعالی نے اسے روز اول سے ہی حرم یعنی حرمت والا شہر قرار دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ سے حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

mإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا (النمل:91)

مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی بندگی کروں جسے اس نے حرمت والا قرار دیا

نیزنبی ﷺ نے فرمایا:

m إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والأرض

اس شہر کو اللہ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔(صحیح بخاری)

نوح کے طوفان میں جب مکہ شہر ڈوب گیا اور پھر ابراہیم کے ذریعے اسے دوبارہ آباد کیا گیا تو ابراہیم نے بھی اسکی دوبارہ آبادی میں اسکی حرمت کا خیال رکھا ، چنانچہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما

ابراہیم نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا۔(صحیح مسلم)

نیزمکہ کی یہ حرمت روز قیامت تک برقرار رہے گی ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة

وہ اللہ کے حرمت والا قرار دینے کے باعث تا قیامت حرمت والا ہے۔(صحیح بخاری)

کسی بھی شخصیت کے لئے قطعا جائز نہیں کہ وہ اسکی حرمت کو حلال کرے خواہ ایک ساعت کے لئے ہی سہی ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي

وہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہوا نہ ہی میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔(صحیح بخاری)

حتی کہ خود نبی ﷺ کے لئے بھی اسکی حرمت کو حلال کرنے کا اختیار نہ تھا البتہ فتح مکہ کے موقع پر صرف ایک ساعت کے لئے اسکی حرمت کو آپ ﷺ کے لئے حلال کردیا گیا تھا تاکہ مکہ فتح ہوجائے ، چنانچہ ارشاد فرمایا:

ولم يحل لي إلا ساعة من نهار فهو

وہ میرے لئے بھی حلال نہیں سوائے ایک ساعت کے۔(صحیح بخاری)

ایک اور روایت میں فرمایا:

وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ

مجھے دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی ، اور آج اسکی حرمت لوٹ آئی ہے جس طرح کل اسکی حرمت تھی۔ (بخاری)

یہ ایک ساعت جو آپکے لئے حلال کی گئی تھی اسکا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے ارشاد فرمایا:

وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ

آپ اس شہر میں حلال ہیں۔(البلد:2)

حرمت کا کیا مطلب ہے؟:

حرمت کا مطلب ہے کہ حدود حرم کی ہر شے کی تعظیم کی جائے اور اسکی بے حرمتی نہ کی جائے ، وہاں فتنہ و فساد ، جنگ و جدال ، فسق و فجورا ور معاصی کا ارتکاب نہ کیا جائے اور ان پابندیوں کا خیال رکھا جائے جو نبی اکرمﷺ نے خاص طور پر حرم کی نسبت لگائی ہیں ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً

مکہ کو اللہ نے حرمت والا بنایا نہ کہ لوگوں نے چنانچہ کسی کے لئے جائز نہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہوکہ وہ اس میں خونریزی کرے اور نہ یہ کہ وہ اس میں درخت کاٹے۔(صحیح بخاری)

mلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ

اسکی بوٹی کو نہ چنا جائے ، نہ اسکا درخت کاٹا جائے ، نہ اسکا شکار بھگایا جائے ، نہ اسکا گمشدہ سامان اٹھایا جائے مگر شناخت کروانے والے کے لئے۔(صحیح بخاری)

نیز فرمایا:   لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ

اسکی کانٹے دار جھاڑی بھی نہ کاٹی جائے۔(صحیح بخاری)

mلا يحل لأحدكم أن يحمل بمكة السلاح

تم مین سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ مکہ میں اسلحہ تانے۔(صحیح مسلم)

البتہ کتب فقہ میں چند استثنائی صورتیں مذکور ہیں جنکا یہ محل نہیں۔

حرمت مکہ کا خیال رکھنے کا اجر و ثواب:

اللہ تعالی نے احکام حج بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ذالِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ (الحج:30)

جو بھی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اسکے رب کے نزدیک اسکے حق میں بہتر ہے۔نیز نبی ﷺ نے فرمایا:

لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها

یہ امت اسوقت تک خیریت سے رہے گی جب تک اس حرمت کی کما حقہ تعظیم کرے گی۔(سنن ابن ماجہ المناسک،فضل مکۃ،رقم:3901)

مکہ کی بے حرمتی کا وبال:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آَمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہوجن لوگوں نے تمہیں مسجدحرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے(المائدہ:2)

دوسرے مقام پر واضح الفاظ میں فرمایا:

وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيم (الحج:25)

جو بھی وہاں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔

الحاد کج روی اور بے دینی کو کہتے ہیں ، ظلم کے ساتھ الحاد کا معنی ہے کہ شریعت کی خلاف ورزی کرنا خواہ کبیرہ گناہ شرک ، بدعت ، قتل ، زنا ، چوری وغیرہ کی صورت میں ہو یا صغیرہ گناہ کی صورت میں کیونکہ دونوں ہی ظلم کی تعریف میں داخل ہیں ، دردناک عذاب کی یہ سزا مذکورہ معصیت کا محض ارادہ کرلینے پر بیان کی گئی ہے اگرچہ اس پر عمل نہ کیا جائے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم میں معصیت کا گناہ دیگر مقامات پر معصیت کے گناہ سے کئی گنا زیادہ ہے اور حرم میں معصیت کا فقط ارادہ کرنا بھی بڑا گناہ ہے ۔

امام ابن جریر الطبری نے فرمایا:

وأولى الأقوال التي ذكرناها في تأويل ذلك بالصواب القول الذي ذكرناه عن ابن مسعود وابن عباس، من أنه معنيّ بالظلم في هذا الموضع كلّ معصية لله

اس آیت کی تفسیر میں ہمارے ذکر کردہ اقوال میں راجح قول ابن مسعود اور ابن عباس کا ہے کہ یہاں ظلم سے مراد ہرطرح کی معصیت ہے۔(تفسیر الطبری،تحت آیۃ مذکورۃ)

(نوٹ)یہاں سے ان لوگوں کی حیثیت کا بھی تعین ہوجاتا ہے جو حرمین پر قبضے کا خواب دیکھتے ہیں ، جو ہمشہ خواب ہی رہے گا ، کیونکہ دجال جیسا طاقتور اس پر قابض نہیں ہو سکتا تو اسکے ہمنواؤں میں اتنی جرات کہاں؟

نیز نبی ﷺ نے فرمایا:

لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها فإذا ضيعوا ذلك هلكوا

یہ امت اسوقت تک خیریت سے رہے گی جب تک اس حرمت کی کما حقہ تعظیم کرے گی اور جب وہ اسے ضائع کردے گی تو تباہ و برباد ہوجائے گی۔(سبق تخریجہ)

mيغزو جيش الكعبة فإذا كانوا ببيداء من الأرض يخسف بأولهم وآخرهم

ایک لشکر کعبہ پرحملے کے لئے آئیگا جب وہ بیدا پہنچے گا اسے اسکے آگے اور پیچھے والوں سمیت زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح بخاری)

نیزتمیم داری کی حدیث جسکے مطابق جب کچھ لوگوں کی دجال سے ملاقات ہوئی تو اس نے ان سے نبی اکرم ﷺ کے متعلق پوچھا انہوں نے کہا کہ وہ ظاہر ہو چکے ہیں اور عرب کے لوگ انکی اطاعت اختیار کررہے ہیں تو دجال نے کہا :

أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا

انکے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ انکی اطاعت کریں ، میں تمہیں اپنے متعلق بتاؤں : میں مسیح دجال ہوں قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت مل جائے ، میں 40 دن کے اندر زمین کی ہر بستی میں جاؤں گا سوائے مکہ اور طیبہ کے ، وہ دونوں مجھ پر حرام کردیئے گئے ہیں ، میں جب بھی ان میں سے کسی ایک میں داخل ہونا چاہوں گا ایک فرشتہ تلوار تانے میرے سامنے آجائے گا ، اور مجھے اس سے روک دے گا ، اور اسکے ہر نقب پر فرشتے پہریدار ہیں۔ (مسلم)

نیز جو شخص مکہ پر حملہ کرے اسکے گناہ کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

لو وزنت ذنوبه بذنوب الثقلين لوزنتها

اگر اسکے گناہوں کو دو جہانوں (تمام جن و انس) کے گناہوں کے ساتھ تولا جائے تو اسکے گناہ بھاری ہوں۔ (مسند احمد،رقم:5924-الصحیحۃ،رقم:2462)

اللہ تعالی نے مکہ پر حملہ کرنے والوں کا انجام بیان کرنے کے لئے پوری ایک سورۃ نازل کی ارشاد فرمایا:

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (سورۃ الفیل)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ، کیا اس نے انکی تدبیر کو ناکام نہ کیا اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے جو ان پر نوکیلے پختہ پتھر برساتے ، پس اس نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کردیا۔

بد خواہان حرم کا ہمیشہ یہی حشر ہوا ہے اور آئندہ بھی یہی حشر ہوگا۔

فضائل مدینہ:

مکہ کی طرح مدینہ منورہ بھی بے شمار عظمتوں ، برکتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے ، دونوں ہی حبیب کریم ﷺ کے شہر ہیں ، ایک آپکا مولد و منشا تو دوسرا آپکا مھجر و مضجع ہے ، دونوں ہی حرم ہیں ، دونوں کی حرمت بیان کرنے اور انکے لئے دعائیں کرنے والے دو معزز ترین رسول ہیں ، ایک جد الانبیاء والرسل سیدنا ابراہیم ﷺ ہیں ، دوسرے خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد ﷺ ہیں ، مکہ میں آب زمزم ہے تو مدینہ کی مٹی اور عجوہ کھجور باعث شفا ہے ، مکہ میں حجر اسود جنت کا ٹکڑا ہے تو مدینہ میں روضہ مسجد نبوی ﷺ جنت کا حصہ ہے ، مکہ میں شجر و حجر آپ کو سلام کرتے تھے تو مدینہ میں کھجور کا تنا آپ کے فراق میں روتا تھا ، دونوں ہی مھبط وحی ، مرکز اسلام ، مقام نزول برکات و مقدس شخصیات ہیں ، دونوں ہی میں جبریل امین کی آمد و رفت رہی ، دونوں ہی میں انصار و مہاجرین ملتے جلتے رہے ، دونوں ہی دجال اور اسکے ہمنواؤں کے شر سے محفوظ رہیں گے ، دونوں ہی سرحدوں پر فرشتے متعین ہیں ، الغرض دونوں میں کئی قدریں مشترک و متحد ہیں ، مکہ کے فضائل آپ ملاحظہ کرچکے اب مدینہ کے فضائل ملاحظہ ہوں:

مدینہ ایمان واخلاص اور نصرت اسلام کا شہر ہے:

مکہ کا تقدس مکہ ہی طرح قدیم ہے لیکن مدینہ کو تقدس حاصل ہے نبی ﷺ کی ذات کی بنا پر ، کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کریں اور اسے اپنا مسکن بنائیں ، اسی شہر کے باشندوں کے ذریعے اللہ اسلام کو غالب فرمائے گا ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ

مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا جو سب بستیوں کو کھا جائےگی ، وہ مدینہ ہے ، وہ لوگوں کو اسطرح نکھار دیتا ہے جسطرح بھٹی لوہے کا زنگ دور کردیتی ہے۔(صحیح مسلم)

امام ابن حجر نے اسکی تشریح میں فرمایا:

أَيْ تَغْلِبهُمْ . وَكَنَّى بِالْأَكْلِ عَنْ الْغَلَبَة لِأَنَّ الْآكِل غَالِب عَلَى الْمَأْكُول . وَوَقَعَ فِي ” مُوَطَّأ اِبْن وَهْب ” : قُلْت لِمَالِك مَا تَأْكُل الْقُرَى ؟ قَالَ : تَفْتَح الْقُرَى . وَبَسَطَهُ اِبْن بَطَّال فَقَالَ : مَعْنَاهُ يَفْتَح أَهْلهَا الْقُرَى فَيَأْكُلُونَ أَمْوَالهمْ وَيَسْبُونَ ذَرَارِيّهمْ

یعنی ان پرغالب آجائے گی ، کھانے سے غلبہ مراد لیا کیونکہ کھانے والا کھانے کو کھا جاتا ہے ، موطا ابن وھب میں ہے کہ: میں نے مالک سے پوچھا کہ بستیوں کو کھاجانے کا کیا مطلب ہے؟

تو انہوں نے فرمایا:بستیوں کو فتح کرے گی ، ابن بطال نے اسکی وضاحت کی ہے کہ:اسکے باشندے علاقوں کو فتح کریں گے انکے اموال کو کھاجائیں گے اور انکے باثیون کو قید کریں گے۔(فتح الباری،الحج،فضل المدینۃ،تحت حدیث رقم:1738)

یعنی اہل مدینہ دیگر علاقوں کے باشندوں پر ایمان و اخلاص اور اسلام کی نصرت میں دیگر علاقوں کے مسلمانوں پرسبقت لے جائیں گے،جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا

ایمان بالآخر مدینہ میں ہی رہ جائے گا جسطرح سانپ بالآخر اپنے بل میں جا گھستا ہے۔(صحیح بخاری)

ایک روایت کے الفاظ ہیں:

إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ وَهُوَ يَأْرِزُ بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ فِي جُحْرِهَا

اسلام آغاز میں اجنبی تھا اور جلد دوبارہ اجنبی ہوجائے گا، اور دو مسجدوں (مسجد حرام ، مسجد نبوی) میں رہ جائے گا جس طرح سانپ بالآخر اپنے بل میں جا گھستا ہے۔(مسلم)

نیزجسطرح ماضی میں اسلام کو مدینہ میں اور پھر اہل مدینہ کے ذریعے سارے عرب میں غلبہ حاصل ہوا اسی طرح مستقبل میں بھی اسی طرح ہوگا ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُّوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ

قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا ( یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب) پھر مدینہ سے ایک لشکر ان کی طرف نکلے گا، جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا، جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تونصاریٰ کہیں گے کہ تم ان لوگوں(یعنی مسلمانوں) سے الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہماری بیویاں اور لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہیں ہم ان سے لڑیں گے، مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم ! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے، پھر لڑائی ہوگی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہ کرے گا اورایک تہائی لشکر مارا جائے گا، وہ اللہ کے ہاں سب شہیدوں میں افضل ہوں گے اورایک تہائی لشکر کی فتح ہوگی، وہ عمر بھر کبھی فتنے میں نہ پڑیں گے، پھر وہ قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آگیا ہو گا)۔(صحیح مسلم)

نیز یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ انصار صحابہ نے اپنی جانوں اور مالوں دونوں کو آپ ﷺ اور آپ کے رفقاء مہاجرین کے قدموں میں نچھاور کردیا اور اسلام کی مدد میں کبھی پیچھے نہ رہے ، نبی ﷺ نے انکی ان خدمات کے اعتراف میں ان سے یہ خطاب کیا:

أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ

کیا تمہیں پسند ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں جبکہ تم اپنے گھر میں نبی ﷺ کو لے کر جاؤ، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ، اگر لوگ وادی اور گھاٹی میں جائیں تو میں انصار کی وادی میں جاؤں ، انصار شعار(وہ کپڑا جو جسم کے ساتھ چپکا ہو)ہیں جبکہ لوگ دثار(وہ کپڑا جو بدن سے ملے ہوئے کپڑے کے اوپر پہنا جائے)ہیں۔(صحیح بخاری)

نیزجس طرح مکہ میں منافق جی بھر کر آب زمزم نہیں پی سکتا اسی طرح مدینہ میں بھی منافق ٹک نہیں سکتا ، چنانچہ جابر بن عبد اللہ نے کہا:

أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا

ایک اعرابی نے رسول ﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی ، اور مدینہ میں بیمار ہوگیا ، پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا کہ :اللہ کے رسول مجھے میری بیعت واپس کردیجئے ، نبی ﷺ نے انکار کیا ، اس طرح تین مرتبہ ہوا ، پھر وہ مدینہ سے چلا گیا ، تو نبی ﷺنے فرمایا:مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو خام مال کو جلا دیتی ہے اور عمدہ مال کو بچا لیتی ہے۔(صحیح بخاری)

مدینہ خوش نصیبوں کا شہر ہے:

مدینہ وبائی امراض سے پاک اور برکتوں والا شہر ہے ، نبی ﷺ نے اسکے لئے دعا فرمائی کہ:

اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ

یا اللہ مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت نازل فرما۔( بخاری)

ایک روایت میں دعا کے الفاظ اسطرح ہیں:

اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ

یاللہ مکہ کی طرح مدینہ کو بھی ہمارا محبوب بنادے یا اس سے بھی زیادہ ، یااللہ ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت فرما اور اسے ہمارے لئے پرصحت مقام بنادے ، اور اسکا بخار جحفہ میں منتقل کردے۔(صحیح بخاری)

mعَلَى أَنْقَابِ المَدِينَةِ مَلاَئِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَلاَ الدَّجَّالُ (صحيح البخاري (3/ 22)

مدینہ کے ہر نقب(داخلی راستے)پر فرشتے مقرر ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے۔

مدینہ میں سکونت اختیار کرنا سعادت ، اسکے مصائب پر صبر کرنا سعادت اور اس میں مرنا بھی سعادت ہے ، چنانچہ مدینہ میں سکونت اختیار کرنے کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَدْعُو الرَّجُلُ ابْنَ عَمِّهِ وَقَرِيبَهُ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَخْرُجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ فِيهَا خَيْرًا مِنْهُ أَلَا إِنَّ الْمَدِينَةَ كَالْكِيرِ تُخْرِجُ الْخَبِيثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ

لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ آدمی اپنے(مدنی)چچا زاد یا قریبی کو کہے گا کہ:آؤ آسانی کی طرف(یعنی مدینہ چھوڑ کر)حالانکہ مدینہ ہی انکے لئے بہتر ہوگا اگر یہ جانیں، اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو بھی اس سے جی چراکر نکلتا ہے اللہ اسکے نکلنے پر مدینہ میں بہتری پیدا فرماتا ہے ، یاد رکھو مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو ہر خباثت کو نکال باہر کرتی ہے ، قیامت اسوقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مدینہ اپنے شریروں کو نکال باہر نہ کرے جیسے بھٹی لوہے کے خام کو جلا دیتی ہے۔(صحیح مسلم)

نیز مدینہ میں پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے کے متعلق ابن عمر نے فرمایا:

ترجمہ: انکی ایک لونڈی ان سے کہنے لگی کہ مجھ پر مشکل وقت آپڑا ہے لہذا میں عراق جانا چاہتی ہوں ، انہوں نے کہا کہ :شام کیوں نہیں جو جائے نشور ہے ؟ احمق عورت صبر کر ، کیونکہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ : جو مدینہ کی سختی اور تکالیف پر صبر کرے گا روز قیامت میں اسکے حق میں شفاعت کروں گا۔(سنن ترمذی3853)

اور مدینہ میں مرنے کے متعلق فرمایا:

مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا

جس سے ہوسکے مدینہ میں مرے کیونکہ میں اس میں مرنے والے کی سفارش کروں گا۔(سنن ترمذی،ایضا ،رقم:3852-الصحیحۃ،رقم:2928)

مدینہ بھی بے شمار مقدسات کا شہر ہے:

مدینہ میں ہی مسجد نبوی ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں سے زیادہ ہے۔(صحیح بخاری)

اسی مسجد میں جنت کا باغ ہے جہاں تسبیح و تحمید جنت کے میوے چننے کے مترادف ہے۔(صحیح بخاری)

اسی میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حجرات ہیں جہاں آپ ﷺ اپنے شب و روز بسر کیا کرتے تھے۔

اسی میں آپکا مسکن تھا جس میں لاتعداد بار جبریل پیغام الہی لے کر آئے۔

اسی میں مسجد قبا ہے جہاں دو نفل کا ثواب عمرے کے برابر ہے۔(صحیح ابن حبان،الصلاۃ،المساجد، رقم: 1654)

اسی میں جبل احد ہے جس سے نبی ﷺ اور جو نبی ﷺ سے محبت کرتا ہے۔(صحیح بخاری)

اسی میں جنت البقیع ہے جس میں کتنے ہی صحابہ ، شہداء اور اولیاء امت محو استراحت ہیں اور جس میں مدفون مومنین کے لئے نبی ﷺ نے بخشش کی دعا کی۔(صحیح مسلم)

اسی میں وادی عتیق ہے جسے مبارک قرار دے کر رب تعالی نے اس میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔(صحیح بخاری)

اسی میں روضۃ نبوی ﷺ ہے جہاں آپ ﷺکا جسد اطہرمدفون ہے۔

اسکی مٹی بھی شفا کا باعث ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَمَّى الْمَدِينَةَ طَابَةَ

اللہ نے مدینہ کا نام “طابۃ” رکھا ہے۔(صحیح مسلم)

ایک روایت میں فرمایا:

هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ

یہ “طیبۃ” ہے(صحیح مسلم)

امام ابن حجر نے کہا:

ترجمہ: طابۃ اور طیبۃ دونوں کا مادہ اور معنی ایک ہے یعنی پاک شے ، کہا جاتا ہے کہ (مدینہ کا یہ نام رکھا گیا)اسکی مٹی کی پاکی کی بنا پر ، یہ بھی کہا گیا کہ اسکے باشندوں کی پاکیزگی کی بنا پر ، یہ بھی کہا گیا کہ اس میں سکونت کی عمدگی کی بنا پر ، ایک عالم نے کہا کہ :اسکی ہوا اور مٹی میں موجود عمدگی اس نام کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ اسکے باشندے اسکی مٹی اور ہوا میں عمدہ خوشبو پاتے ہیں جو اور کہیں نہیں ملتی ، اور میں نے ابو علی الصدفی کے ہاتھ سے تحریر کردہ انکے صحیح بخاری کے نسخے کے حاشیے میں انہی کے ہاتھ سے لکھا ہوا پڑھا ہے کہ:حافظ نے کہا کہ:مدینہ کی ہوا اور مٹی کی پاکیزگی کو وہاں رہنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے ، اور اسکی خوشبو بھی اعلی معیار کی ہوتی ہے ، مدینہ کی اپنی خوشبو مدینہ میں دیگر شہروں کی نسبت زیادہ بڑھتی ہے ، یہی معاملہ عود اور دیگر خوشبوجات کا ہے۔

(فتح الباری،الحج،المدینۃطابۃ،تحت حدیث رقم: 1739)

اس بات کی تائید نبی ﷺ کی اس دعا سے بھی ہوتی ہے جس کے ساتھ آپ دم کیا کرتے تھے ، چنانچہ عائشہ نے کہا:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِٓ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا وَوَضَعَ سُفْيَانُ سَبَّابَتَهُ بِالْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَهَا ” بِاسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا “

جب کسی کو تکلیف ہوتی یا پھوڑا یا زخم تو نبی ﷺ اپنی انگلی زمین پر رکھتے پھر اسے اٹھاتے ، (سفیان نے اپنی انگلی کو زمین پر رکھی )اور کہتے:اللہ کے نام سے ، ہمارے شہر کی مٹی اور ہمارے تھوک کے ذریعے ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دی جاتی ہے۔( مسلم)

مدینہ بھی مکہ کی طرح حرمت والا شہر ہے:

مدینہ کی حرمت بھی مکہ کی طرح ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللھم إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما وإني حرمت المدينة حراما ما بين مأزميها أن لا يهراق فيها دم ولا يحمل فيها سلاح لقتال ولا تخبط فيها شجرة إلا لعلف

ابراہیم نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا میں مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں ، اس میں قتال کے لئےاسلحہ نہ تانا جائے ، نہ اسکے پودے کاٹے جائیں مگر چارے کے لئے۔ ( مسلم)

(نوٹ)مدینہ بھی مکہ کی طرح “حرم” اور اللہ کی نشانی یعنی “شعار” ہے لہذا اسکی حرمتوں کا لحاظ کرنے کا بھی وہی اجر و ثواب ہے جو حرم مکی کے تقدس کا خیال رکھنے کا لہذا اسکے اعادے کی ضرورت نہیں۔

حرم مدنی کی بے حرمتی کا وبال:

مدینہ کی حرمت پامال کرنے والے کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:

المَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا، فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ(بخاري (4/ 102)

عیر سے لیکر ثور تک مدینہ حرمت والا ہے ، جس نے اس میں بدعت ایجاد کی ، یا بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو ، اسکا نفل یا فرض کوئی عمل قبول نہ کیا جائے گا۔

اہل مدینہ کے خلاف سازش کرنے کا وبال:

لاَ يَكِيدُ أَهْلَ المَدِينَةِ أَحَدٌ، إِلَّا انْمَاعَ كَمَا يَنْمَاعُ المِلْحُ فِي المَاءِ (صحيح البخاري (3/ 21)

جس کسی نے اہل مدینہ کے خلاف سازش کی وہ ایسے پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔

ایک روایت میں فرمایا:

مَنْ أَرَادَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ (صحیح مسلم)

جس کسی نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا اللہ اسے پگھلادے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔

حرم مکی پر حملے کی نیت سے آنے والے ابرہہ اور اس کے لشکر کا یہی حشر ہوا تھا کہ گھلتا ہوا وہ جب یمن لوٹا تو چوزے کی طرح رہ گیا تھا پھر وہیں مردار ہوا، نبی ﷺ نے مذکورہ احادیث میں حرم مدنی پر بری نگاہ رکھنے والے کے بھی اسی حشر کی خبر دے دی۔

ایک روایت کے الفاظ ہیں:

مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ ظُلْمًا أَخَافَهُ اللَّهُ وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا

(ترجمہ)جس نے اہل مدینہ کو ظلم سے ڈرایا اللہ اسے ڈرادے گا ، اس پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ، روز قیامت اسکی کوئی عبادت قبول نہ کی جائے گی۔(مسند احمد،رقم:15962)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں اسطرح ہے کہ:

أَنَّ أَمِيرًا مِنْ أُمَرَاءِ الْفِتْنَةِ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَكَانَ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُ جَابِرٍ فَقِيلَ لِجَابِرٍ لَوْ تَنَحَّيْتَ عَنْهُ فَخَرَجَ يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ فَنُكِّبَ فَقَالَ تَعِسَ مَنْ أَخَافَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنَاهُ أَوْ أَحَدُهُمَا يَا أَبَتِ وَكَيْفَ أَخَافَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ مَاتَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَقَدْ أَخَافَ مَا بَيْنَ جَنْبَيَّ

ایک امیر فتنہ مدینہ آیا ، جبکہ جابر کی بصارت زائل ہوچکی تھی ، جابر سے کہا گیا کہ آپ اس سے دور رہیئے گا ، پھر ایک دن وہ اپنے دو بیٹوں کے سہارے باہر نکلے تو انہیں (امیر کی آمد پر) کنارے کی جانب دھکیل دیا گیا ، تو وہ کہنے لگے : ہلاک ہو جس نے رسول اللہ ﷺ کو ڈرادیا ، تو انکے ایک بیٹے نے پوچھا : وہ کس طرح آپ ﷺ کو ڈرا سکتا ہے جبکہ آپ فوت ہوچکے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ : جس نے اہل مدینہ کو خوفزدہ کیا اس نے مجھے خوفزدہ کیا۔

(مسند احمد،رقم:14290-صحیح الترغیب والترھیب ،رقم: 1213)

آخر میں اللہ سبحانہ و تعالی سے انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا ہےکہ وہ مجھ ناچیز کو بھی اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے اور میری اس حقیر سی کاوش کو قبول فرمائے۔(اللھم آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے