۱۲DSCF000.jpgاپریلبروز اتوار جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں کراچی شہر کی مختلف جماعتوں جیسے جماعت اسلامی، جماعت اہل سنت والجماعت ، غربا اہل حدیث، جماعۃ السنۃ، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت اہل حدیث سندھ اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے اور عام لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے میں شرکت کی الحمدللہ ، کانفرنس میں اسٹیج سکیرٹری کے فرائض جامعہ کے استاد شاہ فیض الابرار صدیقی نے انجام دیےپروگرام کا آغاز کلام پاک سے قاری تاج الدین نے کیانظم پیش کرنے کی سعادت عثمان ابراہیم نے حاصل کی اس کے بعد تقا ریر کا باقاعدہ آغاز ہوا مندرجہ ذیل علماء و مشائخ نے خطابات کیے، جس میں سب سے پہلے۔

الشیخ ابو زبیر محمدحسین حفظہ اللہ، استاذ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نےعربی میں خطاب کیا انہوںنے اس حدیث ’’من حمل علینا سلاح فلیس منا‘‘کی روشنی میں یمن میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے حوثی باغیوں کے بارے کہا کہ ان باغیوں کی سرکوبی کے لیے عالم اسلام کو مل کر اقدام کرنا چاہیے اور پاکستان کو بھی اپنے برادر ملک سعودیہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ اے اہل پاکستان کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کچھ ہے؟

ڈاکٹر عبدالحئی المدنی، پروفیسر این ۔ای۔ڈییونیورسٹی، انہوںنے کہاسعویہ کا معاملہ اور حرمین کا دفاع دراصل مسلمانوں کا امتحان ہے وگرنہ اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت پہلے بھی کی ہے اور اب بھی کرنے پہ قادر ہے ، سعودیہ کا امت مسلمہ کے لیےسب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ اس نے سرزمین مقدس کے امن کو قائم رکھا ہوا ہے جوکہ آل سعود کی حکومت سے پہلے شدید انتشار کا شکار تھی، اور ہمارا سعودیہ کے ساتھ تعاون کرنا یہ خود ہم پہ احسان ہوگا کہ ہم سے اللہ یہ عظیم کام لیا۔

الشیخ محمدسلفی، مدیر جامعہ ستاریہ الاسلامیہ، بائب امیر جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان، انہوں نےکہا، اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت کا کام ایک معمولی پرندے ابابیل سے لے لیا تھا ہمارے لیے تو یہ کا م باعث سعادت ہوگا اور ہمیں ان باغیوں کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے، عراق اور لیبیا کی حکومتوں کو برباد کرنے میں بھی شیعہ یہودی اورنصرانی لابی متحرک ہے اور اس معاملے میں بھی انہی کی مذموم سازش کارفرماہے ۔

الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی، امیر جمعیت اھل حدیث سندھ، محترم شیخ نے اپنے فکر انگیز بیان میں کہا، پاکستانی پارلیمنٹ کی قراداد انتہائی احمقانہ اورشرعی مقاصد سے دور ہے، باغیوں کے خلاف سعودی جنگ یہ پرائی جنگ نہیں بلکہ یہ دو ملکوں کے درمیان باغیوں کی سر کوبی کی جنگ ہے اور یہ ان روافض کے ساتھ ہے جن کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا تھا: ’’روافض یہود ونصاریٰ کے سب سے بڑے معاون ہیں پاکستان کو فوری طور پر سعودیہ کے ساتھ شانے سے شانہ ملانا چاہیے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔

جناب اسدللہ بھٹو، نائب امیر جماعت اسلامی،انہوں نے سعودی حکومت اور بطور خاص شاہ فیصل رحمہ اللہ اسلام کی خاطر کی جانے والی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کیااور کہا کہ حرمین کی حفاظت کے لیے ہماری جانیں بھی حاضرہیں، انہوں نے کہا حوثی باغیوں کو ابرہہ کے واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ وہ بھی اسی سرزمین یمن سے اٹھاتھا، اور کہا سعودیہ کے تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور تمام یورپی ممالک صرف تماشہ بین ہیں، اور بغاوت جہاں کہیں بھی ہو یہ غلط ہے اور اس کا سد باب کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر خلیل الرحمٰن لکھوی، مدیر معہد القرآن، انہوں نے کہا اگر ہم یمن کے معاملے میں میڈیا کو دیکھیں تو سمجھ یہ آتاہے کہ شاید یہ صر ف اہلحدیثوں کی ذمہ داری ہے اور باقی تمام کے ساتھ مسئلے مسائل ہیں، حوثی باغیوں کے عقائد جاننے کے بعد کیا اب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دو مسلمانوں کی آپس کی جنگ ہے؟ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ سعودیہ کا تحفظ ہی در اصل حرمین کا تحفظ ہے اور اور آل سعود کا تحفظ ہی سعودیہ کا تحفظ ہے، پاکستانی پارلیمنٹ کا منافقانہ کردار اور ثالثی والا مؤقف بہت خطر ناک اور مذ موم ہےآل سعود توحید پرست اور اللہ کی قائم کردہ حدود کا نفاد کرنے والے ہیں تو میری تمام احباب اور خاص کرکے تمام جماعتوں کے قائدین سے گزارش ہے کہ ہمیں اہل توحید یعنی سعودیہ اورحرمین کے تحفظ کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے۔

الشیخ عطاء الرحمن رحمانی (جامعہ رحمانیہ بفر زون )

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم پاسبان ہیں اس کے وہ پاسبان ہمارا

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور اس کی انتظامیہ کا انتہا ئی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اس نازگ موقع پر اس تقریب یعنی دفاع حرمین شریفین کا انعقاد کیا، ان کا کہنا تھا کہ آج یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ جنگ درحقیقت کفر واسلام کی جنگ اورحرمین کا تحفظ جہاد اکبر ہےاور مسلمانوں کے ایمان کا مرکز ہی حرمین شریفین ہے اور انہوں نے امت مسلمہ اور پاکستانی حکومت سے بھر پور اپیل کرتے ہوئے کہا تمام مصلحتوں کو بالا طاق رکھتے ہوئے تحفظ حرمین کے لیے ایک صف میں آکر میدانِ عمل میں آجائے۔ اور ہمارا انداز ایسا ہوناچاہیے کہ کسی کو سعودیہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہو اور یہ بات عیاں ہے کہ آج امت مسلمہ کو جن تین ممالک سے پریشانی ہے ان میں ایک ہمارا پڑوسی ملک کہ جس کے ساتھ اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر درحقیقت جتنے علماء اہل سنت کا قتل ہوا ہے ان تمام میں اسی کا ہاتھ اور اس کے بعدامریکہ واسرائیل کا نمبر آتاہے ۔

الشیخ رب نواز حنفی ،( اہلسنت والجماعت )

حمد وثناکے بعد

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ   ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ (المنافقون:1)

انتظامیہ کا شکریہ ومبارکباد کہ جنہوں نے یہ پروگرام منعقد کیا آغاز میں انہوں نے اپنی جماعت کے شہداء اور اس کا تاریخی پس منظر بتایا اور یہ کہا کہ ہم شروع سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے لبادے میں یہ گروہ ہی در حقیقت اسلام دشمن ہے اور جب 1979 میں ایرانی انقلاب برپا ہوا تو اس میں بھی خمینی نے یہ کہا کہ تھا کہ حرمین پر قبضہ کرکے ابوبکر وعمر کو نعوذ باللہ من ذلک وہاں سے نکالیں گے اور یہ اسی سلسلے کی کڑ ی جو کچھ آج ہمارے سامنے ہے۔ اور یہ واضح طور پر کہا کہ ایران ہی ہے جو کہ پاکستان میں مختلف مقامات پر دہشتگردی کروارہا ہے تو اب بھی ہم یہ دیکھیں گے کہ ہمیں کس کا ساتھ دینا چاہیے؟؟ حالانکہ سعودیہ ، جس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا اور اب ایرانی سفیر آکر کے اینکروں سے ملا تاہے پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات کو خراب وختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں لیکن ہماری استدعا ہے کہ ان سازشوں کا قلع قمع کیا جائے اور بھر پور طور پرحرمین کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں آیا جائے۔ اور یہ بھی کہا جہاں ہمیں بلایا جائے گا ہم ہمہ وقت تحفظ حرمین کے لیے حاضر ہیں۔

ڈاکٹر مزمل ہاشمی ، امیر جامعۃ الدعوۃ سندھ

حمد وثنا کے بعد:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

ڈاکٹر صاحب کا بھی موقف تحفظ حرمین کی بھر پور تائید میں تھا اور کہا یہ ہماری ڈھیلی پالیسیاں ہیں کہ جن کی وجہ سے آج نوبت یہاں تک آئی کہ یہ ہمارے مرکز تک جاپہنچیں ہیں اور کہا کہ اگر پاکستان صرف اس وقت کو یاد کر لے کہ جب اسے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ مل رہی تھی اس وقت سعودیہ نے سنبھالا تو شاید یہی کافی ہوگا اور ان کا موقف تھا کہ اگر ضرب عضب جائز ہے تو پھر ہمیں عاصفۃ الحزم کی تائید میں بھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔

ہدایت اللہ میرانی مرکزی چیئرمین علماء یکجہتی کونسل ۔

نے حمد وثنا کے بعدکہا فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن کا شکریہ کہ جنہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بغیر سوچ وبچار کے سعودیہ کی حمایت کرنی چاہیے اور ہم میں اس مشن میں حرمین شریفین کے تحفظ میں ایک ساتھ ہیں۔

الشیخ مفتی محمد یوسف قصوری امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث سندھ

حمد وثنا کے بعد

هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ

اجلاس کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو مقام ومرتبہ اور عزت وشرف سعودی حکومت کو حاصل ہے وہ کسی اورحکومت کو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ خادم حرمین شریفین ہیں ۔پاکستان اور سعودی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور سعودیہ نے پاکستان کا ہر مشکل وقت میں غیر مشروط طور پر ساتھ دیا تو آج ہم یہ کیوں کہیں کہ یہ بیگانوں کی لڑائی ہے پاکستان کی عوام اور خاص کر جتنی بھی اہلحدیث تنظیمیں ہیں ان کا یہ موقف ہے کہ وہ ہر طرح سے سعودیہ کے ساتھ ہیں کیونکہ سعودیہ کے احسانات اور خاص کرکے ہمارا ان کے ساتھ جو روحانی تعلق ہے اس کے پیش نظر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ امن ہو یا جنگ خادم الحرمین الشریفین کے سنگ

الشیخ محمد یوسف طیبی مدیر جامعۃ الدراسات الاسلامیہ

حمد وثناءکے بعد دفاع حرمین شریفین کی تقریب کے انعقاد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتنی غلط بات ہے کہ مذاکرات کروائے جائیں اورمذاکرات بھی باغیوں کے ساتھ اورظلم بھی صرف نہتے سنیوں پر کئے گئے؟

1 ظالموں اور باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوتے بلکہ قصاص لیا جاتاہے۔

2 اگر سعودیہ کا ہم پر کوئی احسان نہ ہوتا تب بھی حرمین شریفین کا حق ہے کہ اس کی حرمت پر کٹ مریں۔

3 اور یہ حوثی زیدی ہیں ایرانی اور علی حسن زیدی چونکہ صرف زیدی تھا ایرانی نہیں تھا اسی لیے اس کے خلاف تحریک چلائی گئی اور یہ تحریک ایرانی تحریک ہے اور پاکستان کی قرار داد کے مطابق اگر وہ سرحدوں پر پہنچیں گے تو ہم لڑیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کتنے عرصے سے سرحدوں پر پہنچے ہوئے ہیں اور وہ کئی سنیوں کو شہید کرچکے ہیں۔

اورآخر میں ان کا کہنا کہ زبانی اور بیٹھے بیٹھے خدمت کر دینے کا وقت گزر گیا اب خدارا میدانِ عمل میں آئیے اور عملی طور پر اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم واقعی تحفظ حرمین شریفین پر قربان ہونے کے لیے تیار ہیں اور مزید یہ بھی کہا کہ کسی کی ماں کی بے حرمتی اس وقت ہوتی ہے جب اس کی اولاد نہ ہو یا پھر اس کی اولاد کمزور ہو، وہاں ہماری مائیں یعنی امہات المؤمنین اور صحابہ کرام اور نبی کریم بھی ہیں جب کفر متحد ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟؟؟

ان کے بعد نائب مفتی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ الشیخ محمدشریف کے اشعار جن کو اس مجلہ کی زینت بھی بنایاگیا ہے انہوں نے ماحول کو گرماتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں ہمہ وقت تحفظ حرمین کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جس طرح کفار ہر وقت اس کی عزت وناموس کی پامالی کے لیے پروپیگنڈے کرتے رہتے ہیں۔

الشیخ ضیاء الرحمن المدنی

(نائب مدیر الجامعہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ )

شیخ نے حمد وثناء کے بعد تمام حاضرین کا فرداً فرداً نام لیکر شکریہ ادا کیا انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احسانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر صرف یہی بات دیکھی جائے کہ ہمارا ان کے ساتھ ایمانی تعلق ہے تو یہی کافی ہوگا اس کے بعد انہوں نے متفقہ قرار داد پیش کرتے ہوئے اس بات کا بھر پور اعادہ کیا کہ ہم تحفظ حرمین شریفین کے لیے خادم الحرمین الشریفین کے ساتھ ہیں اس قرارداد کے تمام نکات پر تمام جماعتوں کے قائدین اور دیگر احباب مشارکین نےتائید کی قرار داد کے نکات درج ذیل ہیں ۔

1-آج کا دینی جماعتوںاور علماء کرام کا نمائندہ اجتماع سعودی عرب کے خلاف ہونے والی یہود ونصاریٰ اور ان کے حواریوں کی تمام سازشوں کی مذمت کرتاہے اور یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ حرمین کا دفاع ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

2-سعودی عرب جوکہ عالم اسلام کا مرکزہونے کے ساتھ اسلام، پاکستان اور پاکستانیوں کا محسن ہے اور مشکل وقت میں کام آنے والا وفادار اسلامی ملک ہے ہم اس مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دینے کا یقین دلاتے ہیں۔

3-آج کا اجتماع ملک کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور فروعی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عالم اسلام ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے اخلاقی، سیاسی اور فوجی تعاون پر اتفاق پیدا کریں۔

4-سعودی عرب ہمارا دوست ہی نہیں بلکہ حقیقی بھائی ہے اگر اس کی جغرافیائی سالمیت یا خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو اس کے دفاع کےلیے اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔

5-ہم یمن میں غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں یمن کی دستوری حکومت کے خاتمے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

6-ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایرانی حکومت پر سیاسی اور اخلاقی دباؤ ڈالے کہ وہ باغی حوثیوں کی پشت پناہی کرنا بند کردے تاکہ ارض مقدسہ کے امن کو تہہ وبالا ہونے سے بچایا جاسکے۔

7-اسلام دشمن قوتیں متحد ہوچکی ہیںہمیں بھی متحد ومتفق ہونے کی ضرورت ہے۔

8-جس طرح ہم پاکستان میںضرب عضب آپریشن کی تائید کرتےہیںایسے ہی سعودی عرب کے عاصفۃ الحزم آپریشن کی بھی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔

9-پاکستانی میڈیا میں مخصوص لابی اپنے گروہی تعصبات کی وجہ سے سعودی عرب کی حمایت کی ریاستی پالیسی کے خلاف جو ہرزہ سرائی کررہی ہے آج کا اجتماع اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہےکہ وہ عوام الناس میں دوست ملک سعودی عرب کےخلاف شر انگیز پروپیگنڈہ کرنے والوں پر کڑ ی نظر رکھے اور ان کے بیرونی رابطوں کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف غداری کے مقدمات چلائے۔

10-آج کا یہ دینی جماعتوں کانمائندہ اجتماع دفاع الحرمین الشریفین اور سعودی عرب کی حمایت کے لیے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ پاک فوج کو سعودی عرب میںبھیجنےکے عوامی مطالبے کو پورا کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے