ایک بہت اہم ضرورت دینی تعلیم وتربیت کی تھی کہ ماہرین قرآن وسنت پیدا ہوں، تفقہ فی الدین رکھنے والے راسخ العلم حضرات تیار ہوں۔ اس تعلیم کا سامان اللہ تعالیٰ نے کروادیا ہے۔ تربیت کے میدان میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بیشتر علاقوں میں اب مزید درس نظامی کے مدرسوں کی ضرورت نہیں رہی اور مدرسوں کی یہ تعداد ماہرین قرآن وسنت پیدا کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ بس اس کا معیار مزید بہتر بنانے اور تربیت کے معیار کو اور پختہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی نسل کی ضرورت

ہمارے مدارس سے پوری قوم کا مسئلہ حل نہیں ہوا دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہماری اٹھارہ کروڑ کی قوم کے کتنے فیصد بچے دینی مدرسوں میں آتے ہیں۔باقی بچے کہاں جاتے ہیں یقیناً وہ اسکولوں میں جاتے ہیں ۔ سب کو نہ عالم بنانا ضروری ہے نہ سب کو بنانا فرض عین ہے۔ فرضِ کفایہ کی حد تک علماء کی تعداد مدرسوں سے تیار ہوسکتی ہے یہ جو پوری قوم اسکولوں کے ذریعے پر وان چڑھ رہی ہے جس ماحول میں یہ تعلیم حاصل کر رہی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام عملی طور پر سیکولر بلکہ ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ دین کا نام تو برائے نام بھی اب مشکل ہی سے آتا ہے اور دین کا ماحول تو وہاں ہے ہی نہیں۔ دین سکھانے کا کوئی ذریعہ نہیں اس لیے اس قوم کی نئی نسل کو مسلمان رکھنا اب ایک مستقل مسئلہ بن گیاہے۔ورنہ ہمارا میڈیا،سرکاری اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا ماحول نہ صرف یہ کہ سچے پکے مسلمان تیار نہیں کر رہا بلکہ اس میں ان کے ایمان کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اس نسل کے دین وایمان کی حفاظت کا کوئی ذریعہ سوائے اس کے نظر نہیں آتا کہ یہاں بہت بڑی تعداد میں محلہ محلہ، قریہ قریہ ،شہر شہر اسلامی اسکول قائم کئے جائیں۔

اسلامی اسکول کی ضرورت :

میں برسوں سے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں وہاں کے مسلمان بھائیوں سے یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ یہاں درسِ نظامی کے مدرسے کچھ قائم ہوگئے ہیں، مزید ایک دو مدرسے اور قائم ہوجائیں لیکن جونسل ان ممالک کے کافرانہ فسق وفجور اور کفر وشرک کے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے ان کے دین وایمان کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلامی اسکول قائم کئے جائیں لیکن یہ بات ہم پہلے باہر کے ملکوںمیں کہا کرتے تھے اب ہمارے وطن عزیز میں تعلیمی نظام عملی طور پر اتنا سیکولر ہوکر رہ گیا ہے کہ ان اسکولوں میں رہ کر ایمان ودین کی حفاظت بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔ اس واسطے اب تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قوم پورا زور اسلامی اسکول قائم کرنے پر لگائے اور اسلامی اسکول قائم کریں۔ اسلامی اسکول کا مطلب حراء فاؤنڈیشن جیسے اسکول ہیں۔ الحمد للہ آپ نے دیکھا کہ یہاں انگریزی زبان کو بھی مسلمان بنادیا گیاہے اور عصری علوم وفنون کو مشرف بہ اسلام کرکے پڑھایا جارہاہے۔

دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفرق نہیں:

اسلام میں ویسے بھی دینی تعلیم اور دنیا کی تعلیم کی تفریق کبھی نہیں رہی،تمام مسلم ممالک کی تاریخ ،پوری امت کی تاریخ میں آپ دیکھیں گے کہ دین ودنیا کی تعلیم میں کبھی تفریق نہیں رہی، یہ تفریق تو انگریزوں کے دور میں پیدا ہوئی۔ جب انہوں نے ہمارے دینی مدارس کا بائیکاٹ کیا اوراسکولوں میں دین کا بائیکاٹ کیا۔ اس وقت علماء کو یہ ضرورت پیش آگئی کہ دینی مدرسوں کو قائم کریں، جس میں دین کی تعلیم کی حفاظت کریں اور تربیت کریں لیکن آزاد پاکستان بن جانے کے بعد یہاں ضرورت اس بات کی تھی کہ پورے ملک کا نظام ایسا ہو کہ ایک حد مثلاً میڑک تک تمام اسکولوں اور تمام تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم یکساں ہو اور اس کے بعد تمام علوم وفنون کے ماہرین الگ الگ شعبوں میں تیار ہوں۔ عربی کے ماہرین ،قرآن وسنت کے ماہرین پیدا کرنے کے لیے ان مدرسوں اور دار العلوم کا رخ کیا جائے اور دوسرے مضامین میںمہارت پیدا کرنے کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کیا جائے۔

الحمد للہ ان دینی مدرسوں کے ذریعے قرآن وسنت کے علوم نہ صرف محفوظ ہوگئے ہیں بلکہ الحمد للہ ان میں مزید ایسا تحقیقی کام ہوا ہے جو عرب ممالک کے لیے بھی قابل تقلید ہے ۔ عرب ممالک میں جائیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ دین کا علم اگر ہے تو انڈیا وپاکستان میں ہے۔

ہمیں ہر میدان میں خود کفیل ہوناہے:

مگر اس پود کا کیا ہوگا؟ یہ نئی نسل جو تیار ہورہی ہے انہیں ہم جاہل بھی نہیں رکھ سکتے۔ ان سب کو عالم دین بنانے کے لیے درسِ نظامی میں داخل بھی نہیں کرسکتے حقیقت یہ ہے کہ سب کو درسِ نظامی میں داخل کرنا بھی نہیں چاہیے۔ آخر ہمیں مسلمان انجینئروں کی بھی تو ضرورت ہے ہمیں مسلمان ڈاکٹروں کی بھی تو ضرورت ہے ہمیں مسلمان سائنسدانوں کی بھی تو ضرورت ہے معیشت کے مسلمان ماہرین کی بھی ضرورت ہے ۔

غزوۂ حنین کے موقع پر دو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف اس وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہوسکے تھے کہ انہیں رسول اللہ نے شام بھیجا ہوا تھا تاکہ وہ دبابہ کی صنعت سیکھ کر آئیں ، منجنیق کی ٹیکنالوجی سیکھ کر آئیں، تاکہ مسلمان صنعت میں خود کفیل ہوں تو یہ دین ودنیا کی تفریق ہماری تعلیم میں نہیں ہے۔ ہر ڈاکٹر پکا مسلمان ہو، سچا مسلمان ہو اسی طرح ہر انجینئر اور سائنسدان پکا سچا مسلمان ہو یہ دین کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے :

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین کے راستے صرف تین ہیں۔ یا تو اپنے بچے کو مدرسے میں داخل کر دو یا جہاد میں بھی دو، یا تبلیغ میں بھیج دو ۔ بلاشبہ یہ دین کے بہت بڑے اور اہم راستے ہیں لیکن دین کے راستے ان تین میں منحصر نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنی مخلوفات کے سانسوں کی تعداد ہے تجارت بھی ایک ذریعہ ہے معیشت بھی ایک ذریعہ ہے ، زراعت بھی ایک ذریعہ ہے۔ ٹیکنالوجی بھی ایک ذریعہ ہے ، سائنس بھی ایک ذریعہ ہے ، تعمیری اور مخلصانہ سیاست بھی اہم ذریعہ ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام علوم وفنون کو مشرف بہ اسلام رکھا جائے۔ ان علوم وفنون کو مسلمان بنا کر مسلمانوں کو پڑھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے