ماہ مقدس رمضان کریم رحمتوں، بخششوں اور برکتوں کے نزول کا مہینہ ہے اللہ تعالی کو راضی کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا عظیم مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں گناگاروں کوکثرت سےجنہم سے آزادی ملتی ہے ، مگر ہم دیکھتےہیں کہ اس ماہ رحمت کے آغاز سے ہی کراچی میںگرمی کی شدت کی صورت میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ہے یہ مسلمانوں کےلیے ایک بہت بڑی آزمائش ہے اللہ تعالی کا نظام قدرت ہے کہ وہ ابتلاء کے ذریعے لوگوں کے گناہ معاف کرتااوران کے درجات بلند کرتا ہے جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ مومن عام عبادت کے ذریعہ جنت میں وہ درجات حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالی اسے کسی آزمائش میں مبتلاء کردیتا ہے، اور اس ابتلاء پر صبر کے بدلے اللہ اس کے درجات کو بلند فرماتاہے۔

اللہ تعالی کا قانون ہے کہ وہ ابتلاء کے ذریعے لوگوں کو متنبہ کر رہا ہوتاہے کہ گناہوں سے باز آجاؤکہ میں رحمٰن ورحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبّار اورقہّار بھی ہوں، کائنات کا پورا نظام میرے قبضہ قدرت میں ہے، میں جب چاہوں جہاں چاہوں گرمی کی شدت کو بڑھادوں، عام طورپر35، 36 ڈگری سینٹی گریڈدرجۂ حرارت کے درمیان رہنےوالے شہر کادرجۂ حرارت49 ڈگری تک لے جاؤںاور کبھی کبھی آزمائش کے ذریعے اللہ تعالی لوگوں کو سزابھی دیتاہے لیکن یہ اسی وقت ہوتاہے جب معاشرے میں برائیاں عام ہوجائیںسر عام اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب جناب محمدرسول اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی جائے جب انفرادی اور اجتماعی طور پر برائیوں کا ارتکاب کیا جانے لگے اور ظلم عام ہوجائے بلکہ مظلوم کو انصاف ملنا ناممکن ہوجائے ہر انسان کو بس اپنے ہی مفاد کی فکر ہوتو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیےاور سیدھا کرنے کے لیے اس ماہ مبارک میں بھی اس طرح کی آسمانی آفات نازل ہوتی ہیں کہ چند دنوں میں 1500کے قریب افرادزندگی کی بازی ہار گئے، ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگ ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں، اموات کی کثرت سےہسپتالوں کے مردہ خانے لاشوں سے بھر جاتے ہیںاورسرد خانوں میں لاشیں رکھنے کی جگہ تک نہیں رہتی اور شہر کے قبرستانوں میں ان ہلاک ہونے والوں کے لیے قبروں کا حصو ل مشکل ہوجاتاہے، اور گورکن فی قبر کے دس سے تیس ہزار تک وصول کرتے ہیں۔

اس قدر اموات کی بہتات کے باوجود حکومت کی بےحسی اور عیش پرستی میں کوئی خلل نہیںپڑتا حکمران اور وڈیرے آج بھی اپنے ٹھنڈے کمروں میں خواب خرگوش میں مدہوش ہیں، گرمی کی شدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے جیساکہ احادیث مبارکہ میں آتاہے۔

سیدنا ابوہریر ۃ رضی اللہ عنہ سےفرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایاکہ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے حصے کو کھا لیا تو اللہ تعالی نے (سال میں )اس کے لئے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسری سانس گرمی کے موسم میں ، چنانچہ اسی وجہ ہے جو تم شدید گرمی محسوس کرتے ہو اور اسی وجہ سے شدید سردی محسوس کرتے ہو ۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم )

گذشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا گرمی کی جس شدت سے دوچار ہے اسکی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی ، شدید گرمی سے انسان وحیوان سبھی پریشان ہیں، اللہ کی مخلوق متعدد بیماریوں میںبھی مبتلا ہورہی ہے ، بلکہ صرف کراچی میں 1500 کے لگ بھگ ھلاکتیں ہوچکی ہیں اور متعدد ملکوں سےھلاکتوں کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔لیکن گرمی میں شدت کس وجہ سے ہوتی ہے اسے دیکھ کر ایک مسلمان کا موقف کیا ہونا چاہئے اور اسمیں انسانیت کیلئے کیا سامان عبرت اوردرس ہے، یہ وہ حقائق ہیں جو عام لوگوں پر واضح نہیں ہیں ،مذکورہ بالا حدیث میں انہی بعض امور کا ذکر کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے اس حدیث میں دنیا کی گرمی وسردی کا ایک ایسا غیبی سبب بیان ہوا ہے جو دنیا والوں کی نظروں سےمخفی  ہے ، یعنی جب اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا فرمایا اور اسمیں اس قدرگرمی اور تپش رکھی کہ اس کی شدت خود اس کیلئے نا قابل برداشت ٹھہری تو جہنم نے اللہ تعالی سے اس کاشکوہ کیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے یہ اجازت دی کہ سال میں دوبار سانس لیکر اس شدت میں قدرے تخفیف کرلیا کرے ،تو گویا جب جہنم اپنا سانس باہر کی طرف لیتی ہے تو زمین والےگرمی اور اس میں شدت محسوس کرتے ہیں ۔

دوسری اہم بات جوکہ باعث عبرت ہےکہ دنیا کی گرمی اور سردی کو دیکھ کر ایک مسلمان کو آخرت کی گرمی کو یاد کرنا چاہئے آج یہ سورج جو ہم سےکروڑوں میل کی دوری پر ہے اور اسکی گرمی ناقابل برداشت ہو رہی ہے تو جس وقت سورج صرف ایک میل کی انچائی پر ہوگا اس وقت اسکی گرمی کس طرح قابل برداشت ہو گی ؟ آج ہمارے جسم پر مناسب کپڑے ہیں ،سایہ کیلئے گھنے درخت ہیں، گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے وافر مقدار میں پانی موجود ہے پھر بھی اس سورج کی گرمی ناقابل برداشت بن گئ ہے اور اسکے سبب مختلف موذی امراض رونما ہو رہے ہیں حتی کہ بہت سے جاندار اس گرمی کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو رہے ہیں تو قیامت کے دن جب ایک میل کی مسافت پر موجود سورج کی گرمی سے بچنے کیلئے نہ جسم پرکوئی کپڑا ہو گا ، نہ کسی درخت ومکان کا سایہ ہو گا اور نہ ہی اسکی شدت کو کم کرنے کیلئے پانی کا ایک قطرہ ہوگا تو وہ گرمی کس طرح برداشت کی جائے گی ؟

آج اس دنیا میں سورج صرف چند کھنٹے طلوع ہوتا ہے اور اسکی گرمی کی شدت بھی صرف چار چھ کھنٹے رہتی ہے اور صبح وشام لوگوں کو ٹھنڈی سانس لینے کا موقعہ مل جاتا ہے ، سوچنے کی بات ہے کہ سورج کی یہی تپش اگر چوبیس کھنٹے رہتی تو اسے کس طرح برداشت کرتے پھر اہل دنیا ذا غور کریں کہ قیامت کا وہ دن جو چندکھنٹوں کا نہ ہو گا بلکہ وہ ایک دن پچاس ہزار سال کا ہو گا اور اس میں نہ صبح ہو گی اورنہ شام ہو گی اور نہ ہی رات آئے گی، اس وقت کی گرمی اور سورج کی تپش کس طرح قابل برداشت ہو گی؟

اسی چیز کی طرف ہماری توجہ دلاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب پچاس ہزار سال تک اللہ تعالی تمہیں اس طرح جمع کئے رکھے گا جس طرح ترکش میں تیروں کو ٹھونس دیا جاتا ہے پھر تمہاری طرف کوئی توجہ بھی نہ فرمائے گا( مستدرک الحاکم )

تیسری بات یہ ہے کہ سخت گرمی میں ایک مسلمان کو چاہئے کہ بعض وہ عبادات جو ان ایام میں مشروع ہیں یا انکی ادائیگی کا وقت گرمی کے موسم میں آتا ہے اس بارے میں صبر و احتساب سے کام لے ، سخت گرمی اور دھوپ کی شدت وغیرہ کا بہانہ کر کے انکی ادائیگی سے نہ پیچھا چھڑائے اور نہ ہی تنگ دلی کا شکار ہو،بلکہ اس آیت کریمہ کو اپنے سامنے رکھے :

وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ

انہوں (منافقوں)نے کہا کہ(جہاد کیلئے)اس گرمی میں مت نکلو ،کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے ،کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے ۔(التوبہ:81)

سردی کے موسم اور کراہت نفس کے باوجود وضو کرنا :

ارشاد نبوی ہے :

أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ . قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ :إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ۔(صحیح مسلم : 251 الطہارۃ ، سنن النسائی 1/89 ، مسند احمد :2/177 بروایت ابو ہریرۃ)

کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتلاوں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی تمہارے گناہ معاف کردے اور تمہارے درجات بلند کردے؟

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ؛ کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا : سردی کی مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم بڑھا نا ، پس یہی رباط ہے ۔

گویا عام حالت میں وضو سے تو صرف گناہ معاف ہوتے ہیں ، البتہ سردی کے موسم میں اچھی طرح وضو کرنے سے گناہ ہوں کی معافی کے ساتھ جنت میں درجات بھی بلند ہوتے ہیں ، یہ بات اورکئی حدیثوں میں وارد ہےجیساکہ ایک حدیث میںذکر ہے کہ’’ اور سخت سردی کے موسم میں اچھی طرح سے وضو کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا(یہ وہ عمل ہے کہ) جو شخص اس پر مداومت کرلے اسکی زندگی بخیر ہے ، اسکی موت بھی بخیر ہے اور اپنے گناہوں سے ایسے ہی پاک ہوجا تا ہے جسطرح اسکی ماں نے اسے جنا تھا ‘‘‘(سنن الترمذی : (صحیح الترغیب 1/197، بروایات عبد اللہ بن عباس )

بہر حال انسان کوآسمانی آفات سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے اللہ کے حضور سر بسجود ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور ایسے صالح اعمال کرنے چاہیے ہیں جن سے اللہ راضی ہوجائے اللہ تعالی ان آزمائشوں میں ہمیں دنیا میں محفوظ ومامون فرمائے آخرت میں بھی اپنے عرش عظیم کے سائے میں جگہ نصیب فرمائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے