وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 68سال کا عرصہ گزر چکا ہے ”یوم آزادی” ایک طرف تاریخ کے لہو رنگ اوراق کی یاد تازہ کرتی ہے، تو دوسری طرف وہ آزادی کے حسین خواب پر قربان ہوئی قیمتی جانوں، لٹی عصمتوں سے تجدید عہد وفا کا ایک اور موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حال کا محاسبہ کریں اور مستقبل کے لئے ان راہوں کا انتخاب کریں جو ہماری قوم کو زندہ ضمیرلئے حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کریں۔

ہم آج تک قومی محاسبہ سے نگاہیں چراتے ہوئے ہر سال چودہ اگست کے دن کو بھر پور جوش وخروش سے منانا قومی روایت سمجھتے آرہے ہیں۔ جشن آزادی کا مقصد بحیثیت قوم ہمارا قومی محاسبہ ہونا چاہیےترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا ہونے کیلئے ہمیں اپنے اندر اتحاد  پیدا کرنا ہوگا۔’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ یہ پالیسی انگریز سامراج کی ہے اور اسی پالیسی کے تحت پاکستان کی تمام قومیتوں کو جانوروں کی طرح باڑوں میں رکھا گیاہے اور وطن عزیز میں بھی انگریز کے اس قانون پر بھر پور انداز میں عمل درآمد کیا جارہاہے جیسے انگریزاچھی نوکریاں صرف ان لوگوںکو دیتےجو حکومتی اہل کاروں کے خوشامندی اور چاپلوس ہوتے، بد قسمتی سے ہم نے آزادی کے بعد بھی اسی لعنت اپنائے رکھا۔

’’ یہ ملک سنورنے والا نہیں، نہ ہی کوئی اسے سنوارنا چاہتا ہے، چاہے کوئی آمر ہو، یا کوئی بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والا!! الیکشن میں جیتنے کے لیے جہاں پیسہ اور طاقت سب سے اہم ہوں، جہاں پڑھے لکھے لوگ اس لیے الیکشن میں نہ جیت سکیں کہ ان کے پاس اپنی الیکشن مہم چلانے کے لیے رقم نہ ہو، جہاں سفارش چلتی ہو اور قابل لوگوں کو ملازمتیں نہ ملیں ، جہاں گھر سے باہر نکلیں تو یہ بھی یقین نہ ہو کہ لوٹ کر زندہ گھر بھی جانا ہے، جہاں دہشت گردی عادت کی طرح اپنا لی جائے، جہاں بیرونی قوتیں ہمارے نظام کی تخلیق کرتی ہوں ، جہاں عام آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ہو جہاں حکمرانوں کے اللّے تللے کم کرنے کی بجائے ٹیکسوں کا مزید بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے۔

14 اگست پاکستان کی آزادی کا دن ہے ۔ کوئی یہ تو بتائے کہ آزادی کا مطلب کیا ہے؟؟؟ آزادی ؟ کس چیز سے آزادی؟ ہم نے کس مقصد کے لیے آزادی حاصل کی تھی کیا متحد ہندوستان میں کرکٹ کھیل نے پر پاپندی تھی؟ کیا ناچنے اور گانے پر پابندی تھی؟کیا ثقافت کے نام پر عریانی وفحاشی کے فروغ پر پابندی تھی یا آزادیٔ رائے کے نام پر اصحاب محمدﷺاور خانوادۂ نبوت ﷺ پر زبان درازی پر پابندی تھی یا سیاست کے نام پر پوری قوم سے دھوکہ بازی پر پابندی تھی مجھے بتائیے ان میں سے ایساکونساکام ہے جو وہاں رہتےہوئے نہیں کیا جاسکتاتھا کیا انہی کاموں کے لیے اس وطن ِ عزیز کو حاصل کیا تھا، کیا اسی کے لیے لاکھوں عصموتوں کو مندروں کی چوکھٹوں کی بھینٹ چڑھایاتھا؟؟؟ہم بظاہر ایک آزاد ملک کے آزاد انسان ہیں مگرہماری گردنوں میں غلامی کی بیرونی اور داخلی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔ حقیقی آزادی سےہم اب بھی کوسوں دور ہیں۔ آزاد ملک میں تہذیب و تمدن پروان چڑھتے ہیں۔ انسانی اقدار اور اخلاقی روایات جنم لیتی ہیں۔ ثقافتی اور فلاحی کاموں کے ذریعے دنیاوی اور معنوی ترقی کی رفتار نظر آ تی ہے، حقیقی معنوں میں آزاد قومیں امن ومحبت کے ساتھ رہتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی میسر نہیں۔

جس ملک کے سابقہ صدر کے فارن بنک اکاؤنٹ میں 300 ارب ڈالر پڑے ہوں اور بلوچستان کے عوام اپنے حقوق کی جنگ کے لئے پہاڑوں پر چڑھے ہوں اور ان کو ان کا شرعی، قانونی اور انسانی حق دلانے والا اور پہاڑوں سے اتارنے والا کوئی نہ ہو ایسے ملک میں جشن آزادی کیا معنی رکھتاہے؟

مجھے اس ملک سے محبت بھی ہے۔ میںخوشی منانے کے خلاف نہیں ہوں۔ کامیابی کے بعدہمیں خوشی ضرور منانی چاہیے یہ عین انسانی فطرت ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم محمد عربی ﷺ کی امت ہیں خوشی ہو یا غمی طریقہ وہی جو آج سے پندرہ صدی قبل قائم ہونے والی مدینہ کی اسلامی سلطنت کے باسیوں کا تھا ،مگرہم تو ایک ناکام قوم کہلاتےہیںہم امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہیں۔ آگے بڑھنے کی بجائےہم پیچھے چل پڑے ہیں۔ اگر پاکستان کا اقتدار کسی عقل مند انسان کے ہاتھ میںہوتا تو سب سے پہلے وہ ان سیاستدانوں کے تمام پیسے فارن بنکوں سے نکال کر اپنے ان عوم کی فلاح وبہبود کا کام کرتا جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم آزادی کا جشن منائیں یا غلامی کی زنجیروں پر ماتم کریں؟ ہم نےاپنے حکمرانوں کو وہ فوجی ہوں یا سویلین بڑی بڑی تقریریں کرتے ہوئے سنا۔ بڑی بڑی تفریبات میں ایوارڈز دیتے اور لیتے ہوا دیکھا، قومی پرچم لہراتے دیکھا اور وہاں بھی ایک ہی عہد دہرایا جاتا رہا۔ کہ’’ ہم اس ملک کو ایک عظیم ملک بنائیں گے‘‘۔ آج 68سال کے بعد اس ملک کو ہم نے جو کچھ بنایاہے وہ سب کے سامنےہے۔ پاکستان کے بعد آزادہونے والے ممالک نےترقی کی اور صنعتی طاقت بنے۔ ہم نے ریورس لگایا۔ اور آج پاکستان کو ایک ایسا ملک بنادیا ہے۔ جہاں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جہاں عوام بجلی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ علاج معالجہ کی سہولیات کا یہ حال ہے کہ فری تو کجا آپ پرائیویٹ بھی حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ کیونکہ بڑے شہر دیہاتی علاقوں سے کافی دور ہوتے ہیں۔ اور پھر ہسپتالوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے دیہاتی بیچارے لائینوں میں ہی ذلیل ہوتے رہتےہیں۔ کیا پاکستان لوگوں کو ذلیل کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ ملک میں گیس کی فراوانی ہونے کے باوجودہم اسے اپنے لوگوں کو فراہم نہیں کرسکتے۔ انصاف کا حصول اتنا مشکل ہے کہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی آپ انصاف حاصل نہیں کر سکتے۔ اور انصاف کی سبک رفتاری کا عالم یہ ہے کہ نسل گزر جائے لیکن فیصلہ نہ آئے۔ میرٹ کا تقدس ہمارے لیڈر ایسے پامال کرتےہیں کہ حقدار گلے میں رسے کا پھندا ڈال لیتا ہے۔ بدیانتی، اقرباپروری، رشوت ستانی ہم پاکستانیوں کے ماتھے کا جھومرہیں۔ امن کا یہ حال کہ جب بھی گھر سے باہر نکلو آخری بار سمجھ کر نکلو۔ کس کس برائی کا ذکر کریں۔ شرمندگی در شرمندگی ہے۔

ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں۔ہم نے کرپٹ لوگوں کو اپنا رہنما بنایا ہے، اور ان کرپٹ نوسربازوں نے آج تک اس ملک کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ایسی پالیسیاں بنا دی ہیں۔ کہ ایک غریب آدمی آج عوام کے مسائل حل کرنے اور اس ملک کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے ایوان میں پہنچ سکے، یہاں ہر وہ شخص پہنچ سکتا ہے جس کے پاس قابلیت صفر ہو ڈگری بھی جعلی ہو لیکن ٹکٹ دینے والی جماعت کو بلینک چیک دینے کی وسعت رکھتاہو اور پھر الیکشن میں مد مقابل کے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ الیکشن مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہانے کی صلاحیت ہو یہی یہاں کے ایوانوں کا معیار ہے جو اس پر پورا اترا وہ کامیاب ہے، اگرچہ اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص بھی نہ یاد ہو نماز جنازہ کا کچھ پتہ تک نہ ہوبس سوٹ بوٹ اور ٹائی لگانی آتی ہو۔ مگر ایک مکروہ سوچ کے زریعے اس ملککے نوجوان طبقے کو تعلیم سے  دور رکھا گیا ہے۔ 80٪ فیصد آبادی رولر ہے اور رولر ایریاز میں گرلز، بوائز کالج، یونیورسٹیاں ممنوع ہیں۔

پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن بدکردار لوگوں کو ایوانوں میں پہنچا کر نہ وسائل سے مستفیدہو سکے اور نہ اللہ کی دنیا میں دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا۔ عوام کے غلط فیصلے( غلط لوگوں کو ووٹ دے کر) اللہ کی رحمت سے بھی محروم ہیںاور اگر ہمارے حکمران سدھرے نہیں تو پھر شاعر کی یہ بات ان کے کردار کی عکاس ہے۔

کیسے کہہ دیں کہ ہم آزاد ہیں؟

یہ محافظ نہیں یہ جلاد ہیں!

بھارت میں ہم جنس پرستی کے فروغ کا مقصد

ہم جنس پرستی کے ذریعے معاشرتی بربادی کے اسباب پیدا کرنے کی سازش کا دائرہ ایشیاء تک وسیع کردیا گیا ہے پاکستان و مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی ایک اور نئی سازش جس کے تحت امریکہ ، کنیڈا، برطانیہ جرمنی اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے 32سے زائد ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانوناً جائز قرار دے کر باقاعدہ طور پر اسے معاشرے کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے مگر اب امریکہ اور یورپ کے بعد تیسری دنیا کا نمبر ہے اور امریکہ و اسرائیل کی بھرپور کوشش ہے کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک میں ہم جنس پرستی کوواج و فروغ دیا جائے اور چونکہ بھارت امریکہ و اسرائیل کا ایک ایسا لے پالک ہے جسے امریکہ اور اسرائیل ایشیا میں وہی کردار سونپنا چاہتے ہیں جو عرب میں اسرائیل اور یورپ میں خود امریکہ کا ہے اس لئے بھارت میں امریکی و اسرائیلی ایماء پر ”ہم جنس پرستی “ کو قانوناً جائز قرار دینے کے منصوبے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے جس کی ابتداء دہلی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمے میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کے فیصلے  کے ذریعے کی گئی ہے ۔

بھارت چونکہ دیوی دیوتاؤں کے ماننے والے غیر الہامی و غیر روحانی مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا ملک ہے جس کا مذہب خود ساختہ روایات واخلاقیات پر مبنی ہے اس لئے اس مذہب میں ترمیم یا اس مذہب کے ماننے والوں کو کسی بھی سماجی برائی کی جانب راغب کرنا انتہائی آسان کام ہے پاکستانی معاشرے کو ہم جنس پرستی کی لعنت سے محفوظ رکھنے کےلئے بھارتی فلموں اور چینلز پر مکمل پابندی کی ضرورت  ہے۔

ہم جنس پرستی بلا استثناء دنیا کے ہر مذہب میں گناہ، غیر فطری اور قابل لعنت و ملامت فعل ہے۔ خواہ الہامی مذاہب ہوں جیسے اسلام، عیسائیت اور یہودیت خود ساختہ مذاہب جیسے   تاؤازم اور شنٹوازم سے سناتن دھرم تک کے تمام قدیم مذاہب سب ہم جنس پرستی کو ناجائز اور قابل دست اندازی قانون جرم گردانتے ہیں جبکہ اس حوالے سے اسلام کا مؤقف سب سے زیادہ واضح اور سخت ہے۔ قانون اسلام کی بنیادی کتاب قرآن میں کم از کم سات مقامات پراللہ کے پیغمبر سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنسی کی لعنت میں گرفتار ہونے کی بناء پر مجرم کہلائی اور اس وجہ سے اس پر نازل ہونے والے عذاب کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔چونکہسیدنا لوط کی قوم ”سدوم“ کا زمانہ کئی ہزار سال قبل مسیح کا ہے اس لئے اس کے حوالے سے قرآن میں مذکورہ واقعہ کا تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جنس پرستی کی تاریخ کس قدر پرانی ہے اور دور قدیم سے ہے اسے ایک قبیح فعل قرار دے کر نہ صرف اس پر پابندی عائد کی گئی بلکہ اسے گناہ بھی قرار دیا گیا جبکہ اسلام میں یہ ایک  گناہ کبیرہ  ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے