انسان اپنی زندگی میں بہت سارے جملے، فقرے اور بول سنتا یا مختلف جگہوں اور گاڑیوں پر پڑھتا ہے۔ ایک عقلمند اور دانشور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ان جملوں اور فقروں کی حقیقت کیا ہے اور یہ کس حد تک درست ہیں۔ آیا ان کی کوئی حقیقت ہے بھی سہی یا صرف زبان زد عام ہیں۔
ان جملوں اور فقروں میں سے بعض ایسے ہیں جو دل سے متعلق ہیں۔یہ جملے اکثر طور پر نوجوان طبقے کے مونہوں سے سننے کو ملتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ’’دل پاگل ہے، دل دیوانہ ہے، دل مجنوں ہے، میرا ایک دل یہ کہتا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے‘ میرا دل کرتا ہے خود کشی کر لوں ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک بے ہودہ تہوار ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ پر بھی دلوں کی بڑی نمائش کی جاتی ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باہم دلوں کا تبادلہ کرتے ہیں ۔اس موقع پر مصنوعی دلوں پر محبت بھرے جملے لکھ کر ایک دوسرے کو پیش کیے جاتے ہیں۔
لیکن اگر تھوڑا غور و فکر کیا جائے تو حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ اس طرح کے جملوں اور فقروں کے قائلین کے دل دراصل ان فتنوں کے قبول کرنے کی و جہ سے سیاہ ہو چکے ہیں جو پے در پے انسان کے دل پر پیش کیے جاتے ہیں۔ جو دل ان فتنوں کو قبول کر لیتے ہیں ان پر یکے بعد دیگرے سیاہ نکتہ لگتا رہتا ہے حتی کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے، جس کی بنا پر وہ نیکی اور بدی کی تمیز کو بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ جب دلوں کی سیاہی اس اسٹیج پر پہنچ جاتی ہے تو آدمی کا دل نیکی سے اُچاٹ اور گناہوں ہی میں شاداں و فرحاں رہتا ہے۔ ایسا شخص اگر کوئی نیکی کرتا بھی ہے تو اس دوران اس کا دل مسلسل برائی کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور پھر وہ شخص اپنے آپ کو نیکی میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے، گویا ایسے دل کا حامل شخص پھر اپنے ہی دل کو پاگل اور دیوانہ کہنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے ہی دلوں کے بارے میں ارشادِ نبوی ہے:

’تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَی الْقُلُوبِ کَالْحَصِیْرِ عُوداً عُوداً فَأَیُّ قَلْبٍ اُشْرِبَھَا نُکِتَ فِیْہِ نُکْتَہٌ سَودَآئُ … لَا یَعْرِفُ مَعْرُوْفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَراً اِلاَّ مَا اُشْرِبَ مِنْ ھَوَاہُ‘

’’چٹائی کے تنکوں کی مثل (پے در پے) دلوں پر فتنے پیش کیے جائیں گے جو دل ان کو قبول کرلے گا اس میں ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جائے گا،… (پھر وہ دل) نہ نیکی کو پہچانے گا اور نہ برائی کا انکار کرے گا بلکہ اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم: 144)
دل کے بارے میں ایسے جملے اور خصوصا ویلنٹائن ڈے کے موقع پر دل کے ساتھ یہ سلوک درحقیقت شیطانیت کی طرف میلان کا نتیجہ ہے جو قلبِ سقیم کی علامت ہے جبکہ دین اسلام بندوں سے ’’قلبِ سلیم‘‘ کا تقاضہ کرتا ہے ۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو جانے کہ اسلام اس سے کیسے دل کا مطالبہ کرتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک مومن کا دل کیسا ہونا چاہیے؟
ذیل میں ہم اسی بات کی وضاحت کریں گے کہ ایک مومن کا دل کیسا ہونا چاہیے تا کہ ہر شخص کے لیے اس کی اصلاح کا سامان مہیا ہو سکے، ہماری اس کاوش کا منبع یہ بھی ہے کہ یہ دل ہی وہ مین پوائنٹ ہے جہاں سے تمام عبادات کے سرچشمے پھوٹتے ہیں۔ رسول اللہe کا ارشادِگرامی ہے: ’’خبردار! جسم میں ایک (ایسا) لوتھڑا ہے، جب وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے۔ جب وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب رہتا ہے۔ خبردار! وہ (لوتھڑا) دل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 1599)
یہی وجہ ہے کہ فتنوں سے محفوظ دل انسان کو کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے جھنجھوڑتا ہے اور اس کے لیے اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ فلاں عمل گناہ ہے اور فلاں عمل نیکی ہے۔ ایسے ہی دلوں کے بارے میں رسول اللہe کا فرمان ہے :

’وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ‘ (صحیح مسلم: 2553)

’’اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے (دل) میں کھٹکے۔‘‘
امام نووی نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ درج ذیل ہے: باب تفسیر البروالإِثم گویا امام نوویa یہ عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ اعضائے جسمانی میں سے ’’دل‘‘ وہ عضو ہے جو انسان کے لیے نیکی اور بدی کی تفریق کرتا ہے، دلوں کی اصلاح کی اہمیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان بڑا مقام رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ o اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعرآء 26: 89,88)

’’جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا۔‘‘
گویا اللہ تعالیٰ کو جو دل مطلوب و مقصود ہے وہ ’’قلبِ سلیم‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے پاگل، دیوانے اور مجنوں دل کے حامل ہوں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا کوئی بندہ یہ کہتا پھرے کہ اس کا ایک دل نیکی کا حکم دیتا ہے اور ایک برائی کا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح الفاظ میں تردید فرمائی ہے، ارشاد ربانی ہے:

مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ (الأحزاب33: 4)

’’اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘
اس بات کو ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ جب ہر آدمی کے سینے میں ایک ہی قلب ہے تو پھر اس قلب کو قلبِ سلیم ہونا چاہیے نہ کہ قلبِ سقیم، اس دل کو اطاعت گزار ہونا چاہیے نہ کہ خطا وار، اس دل میں طاعت و فرمانبرداری کے جذبے کو غلبہ حاصل ہو نہ کہ سیاہ کاری و بدکاری کے جرثوموں کو ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے دنیاوی مشکلوں اور معاشی پریشانیوں سے دلبرداشتہ ہو کر ایسے امور کے ارتکاب پر اتر آئیں کہ جو منہیات میں سے ہیں، مثلاً: خود کشی کر لینا یا حرام ذرائع آمدنی کو اختیار کرنا وغیرہ۔ جبکہ مالی مشکلات اور معاشی پریشانیوں کا آنا ان آزمائشی امور میں سے ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے کہ میرے بندے کس قدر صابر و شاکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔‘‘ (البقرۃ2:155)
رسول اللہeکا فرمان ہے: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اس کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور جب اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر (اللہ کا) شکر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ ‘‘(مسند أحمد: 18959)
گویا ایک مومن مصائب و مشکلات سے گھبرا کر واویلا کرتا ہے نہ ہی منہیات کا ارتکاب کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا دل بھی پسند نہیں جو بندوں کو منہیات کے ارتکاب پر ابھارتا ہو۔
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر مصنوعی دلوں پر عجیب و غریب جملے لکھ کر ان کا تبادلہ کرنا بھی ناپسندیدہ امور میں سے ہے۔کسی کی بہن یا بیٹی کو مصنوعی دل یا پھول پیش کرنا بھی ناپسندیدہ فعل ہے۔ان امورکا ارتکاب کرنے والے یقینا ’’قلب سقیم ‘‘ کے مالک ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو محبوب اور پسندیدہ دل ہے وہ ’’قلبِ سلیم‘‘ ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب قلب ’’قلبِ سلیم‘‘ ہے اور بقیہ قلوب (پاگل، دیوانہ اور مجنوں وغیرہ) ناپسندیدہ ہیں تو پھر ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ قلبِ سلیم کیا ہے؟ اور اس کی صفات کیا ہیں؟
ذیل میں ہم قلبِ سلیم کی وضاحت اور اس کی چند صفات ذکر کرتے ہیں:
قلبِ سلیم
مفسرین نے قلبِ سلیم کی بہت ساری توضیحات کی ہیں۔ امام قرطبیa اپنی تفسیر میں سورۃ الشعرآء کی آیت

اِلاَّ مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْم (الشعرآء 89:26)

کے تحت قلبِ سلیم کے متعلق امام قتادہ اور دیگر مفسرینS کا قول نقل کرتے ہیں: ’’قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک اور شکوک و شبہات سے پاک ہو۔‘‘ (تفسیر قرطبی: 44/16)
امام قتادہa کی مذکورہ توضیح کا معنی یہ ہو گا کہ قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو اور دین کے معاملے میں کسی قسم کا شک نہ ہو، بلکہ یقین ہو کہ اگر اطمینان قلب حاصل ہو سکتا ہے تو فقط دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر، بصورت دیگر اطمینان قلب کا حصول ناممکن ہے۔
امام ابن الجوزیa نے قلبِ سلیم سے متعلق کبار ائمہ سے چھ اقوال نقل کیے ہیں۔ ہم ان میں سے حسین بن فضل  کا قول نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جو مال اور اولاد کے فتنے سے محفوظ ہو۔‘‘ (زاد المسیر: 44/6)
یعنی قلب سلیم سے مراد ایسا دل کہ جس کے اندر مال اور اولاد کی محبت اللہ، اس کے رسول اور احکامات دینیہ سے بڑھ کر نہ ہو۔
امام ابن کثیر  اپنی تفسیر میں سعید بن مسیبa کا قول نقل کرتے ہیں کہ قلبِ سلیم سے صحیح دل مراد ہے کیونکہ کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ
(البقرۃ2:10، و تفسیر ابن کثیر: 436/4)

’’ان کے دلوں میں مرض ہے۔‘‘ابو عثمان النیسابوری فرماتے ہیں: ’’قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جو بدعات سے محفوظ ہو اور سنت پر مطمئن ہو۔‘‘ (تفسیر قرطبی: 44/16)

قلبِ سلیم کی صفات

مذکورہ توضیحات کی روشنی میں ہم قلبِ سلیم کی چند صفات ذکر کرتے ہیں:

1 انابت الی اللہ:

قلبِ سلیم کی ایک صفت رجوع الی اللہ ہے، جب کبھی آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر اور اس کے عذاب کا خوف اس قدر بیٹھ جاتا ہے کہ وہ فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍ

’’جو رحمان سے بغیر دیکھے ڈر گیا اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔‘‘ ( قٓ 50:33)
امام قرطبیa اپنی تفسیر میں سورۃ قٓ کی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’قلبِ منیب سے مراد قلبِ سلیم ہے۔‘‘ گویا قلبِ سلیم کی یہ صفت ہے کہ اس میں ہر وقت اللہ کا ڈر اور خوف رہتا ہے۔
2 اطمینان بذکر اللہ:
قلبِ سلیم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس کے لیے راحت اور سکون کا سامان صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد 13:28)

’’سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔‘‘

3 خشیت الٰہی:

قلب سلیم کی ایک اہم ترین صفت ’’خشیت الٰہی‘‘ ہے، جس کی رغبت دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے،وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس کے حق کے لیے جھک جائیں۔‘‘ ( الحدید 57:16)
گویا ایمان والوں کے دل کی یہ صفت ہے کہ جب ان پر اللہ کی آیات کو پڑھا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پریوں بیان فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (الأنفال8:2)

’’مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔‘‘

4 اخلاص:

قلبِ سلیم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ کسی بھی نیک عمل کو کرتے ہوئے اس میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ اس بارے میں ہماری راہنمائی وہ حدیث کرتی ہے جس پر امام بخاریaنے درج ذیل باب قائم کیا ہے:

’بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَومًا دُونَ قَومٍ کَرَاھِیَۃ اَنْ لاَّ یَفْھَمُوا‘ (صحیح البخاری: 128)

’’عام لوگوں کے بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے چند لوگوں کو علم بیان کرنے کے لیے خاص کرنا۔‘‘ امام بخاریa حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جو بھی شخص خالص دل کے ساتھ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمدe اللہ کے رسول ہیں، اس شخص پر اللہ تعالیٰ نے آگ کو حرام کر دیا ہے۔‘‘

5شکر گزار دل:

دل کا شکر گزار ہونا، یہ بھی قلبِ سلیم کی صفات میں سے ہے۔ اس صفت کونبی اکرمe نے افضل ترین مال کہا ہے۔ آپ  نے فرمایا:

اَفْضَلُہُ لِسَانٌ ذَاکِرٌ وَقَلْبٌ شَاکِرٌ (جامع الترمذی: 3094)

’’افضل ترین مال، اللہ کا ذکر کرنے والی زبان اور شکر گزار دل ہے۔‘‘

6 محبت کرنا:

قلبِ سلیم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کے بعد مسلمانوں کے لیے محبت اور کفار کے لیے نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے:

وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ
(الفتح 48:29)

’’اور وہ لوگ جو اس (محمد) کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔‘‘
مذکورہ تمام صفات حقیقت میں قلبِ سلیم ہی کی ذیلی شاخیں ہیں جن کو اپنانا ہر اس شخص کے لیے لازمی اور ضروری ہے جو قلبِ سلیم کا متمنی ہے۔ ان صفات کو اپنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پہلے ان امور کو اپنائے جو قلوب کی سیاہی کو سفیدی میں بدلنے اور دلوں کے زنگ کو اکھاڑ دینے کا سبب ہیں، مثلاً شرک سے اجتناب، توبہ و استغفار اور تلاوت قرآن وغیرہ۔
جو شخص ان امور کو اپنا کر پھر مذکورہ صفات کو پانے کی جستجو کرے گا یقینا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس راستے کو آسان فرما دے گا۔
محترم قارئین! مذکورہ آیات و احادیث کی روشنی میں اپنے دلوں کی اصلاح کریں ۔خصوصا بے حیائی پر مبنی تہوار ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔ والدین پر لازم ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی اولاد پر خصوصی نظر رکھیں ۔ انھیں ان بے ہودہ تفریحات سے بچنے کی تلقین کریں ۔ انھیں اس بات سے آگاہ کریں کہ بحیثیت مسلمان ہمارا ان فحش تہواروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی اسی میں ہے کہ ہمارے دل فحاشی اور بےحیائی سے پاک ہوں ۔ ویلنٹائن ڈے اور اس جیسے دیگر تہوار ہمارے دلوں کے لیے زہر قاتل ہیں ، لہٰذا اپنے دلوں کو خشیت الٰہی اور اخلاص سے معمور کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے