نام کتاب: تذکرہ مشاہیرِ سندھ المعروف’’ گلستانِ محمدی‘‘
تاریخ وتالیف:  دسمبر 2016ء
مؤلف:  پروفیسر مولا بخش محمدی
مؤلف کا علمی تعارف: کتاب کے آخر ٹائٹل پرمحفوظ ہے۔
صفحات: 528    کاغذ :  اعلیٰ سفید
جلد:  مجلّد        سرورق:  چہار رنگہ
سائز:  20×30/8      تعداد: درج نہیں
قیمت: درج نہیں
ناشر و تقسیم کار: مکتبہ بیت السلام ریاض سعودی عرب/لاہور
با ہتمام:  بحر العلوم ٹرست میر پور خاص سندھ
سندھ میں ملنے کا پتہ :  درج نہیں
ملنے کا پتہ : رحمان مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔
رابطہ نمبر: 0321-9350001، 042-37361371، 37320422۔  
مؤلف کا رابطہ نمبر:  0333-2502157
پیش نگاہ تحریر اردو اور سندھی زبانوں میں شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ( جو کہ مختلف اخبار، رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً لکھے گئے) جو کہ قابلِ ستائش عمل ہے کیونکہ اگر یہ مضامین مختلف جگہوں پر بکھرے رہتے تو بہت سارے ضرورت مند اہل علم حضرات ان سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے۔
تاہم ذی وقار قارئین کرام پیش نگاہ تبصرہ پڑھنے والے حضرات دو قسم کے ہوں گے۔
1 ۔وہ لوگ جن کے پاس ”تذکرہ مشاہیر سندھ“ ہوگی۔  2۔ جن کے پاس یہ کتاب نہیں ہوگی۔
لہذا جن حضرات کے پاس یہ کتاب نہیں ہے ان کیلئے
کتاب کے مندرجات لکھنا بھی اہم ہیں۔
1۔ کتاب کے آغاز میں بلا عنوان افتخار احمد تاج الدین الازھری  نے اظہار خیال فرمایا ہے۔
2۔ ”حرف آغاز“ کے عنوان سے مولانا محمد اسحاق بھٹی  نے کتاب کا عصیر / نچوڑ پیش کیاہے۔
3۔”حرفے چند“ کے عنوان سے کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں محمد رمضان یوسف سلفی  نے لکھا۔
4۔”سخن ہائے گفتنی“ کے عنوان سے محمد تنزیل الصدیقی الحسینی نے لکھاہے۔
5۔”پیش لفظ“ کے عنوان سے اس کتاب کے تخلیق کار نے اظہار خیال فرمایا ہے۔
 اس کے بعد کتاب کا حصہ اوّل اور (اردو مضامین) ہیں۔ جس کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔
حصہ اوّل  (اردو مضامین)
ٍ1 ۔ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ
  2۔ پروفیسر علی احمد انصاری رحمہ اللہ
3۔حاجی احمد علی میمن کی یادیں اور باتیں  
4۔مولانا احمد ملّاح  رحمہ اللہ
5۔مولانا احمد ملّاح رحمہ اللہ
ؒ 6۔ ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ
7۔مولانا اللہ بخش تونیہ رحمہ اللہ
8۔مولانا محمد ریگستانی  
9۔مولانا محمد حیات لاشاری رحمہ اللہ
10۔مولانا دین محمد وفائی  رحمہ اللہ
11۔ڈیپلو کی علمی ادبی شخصیات کی یادیں اور باتیں  12۔مسلک اہلحدیث کی ترویج میں راشدی خاندان کی خدمات  
13۔سیّد رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال  14۔ڈاکٹر زبیر احمد دُوسانی  
15۔علامہ سعید بن یوسفزئی اور حافظ محمد ادریس
16۔مبلغ اسلام مولانا محمد سلیمان کھتری رحمہ اللہ
17۔مولانا عبد اللہ رتو دیروی  
18۔ مولانا عبدالجبار سلفی  رحمہ اللہ
19۔مولانا عبد الجبار گوندل رحمہ اللہ
20۔ آہ! قاضی عبد الحق انصاری بھی چل بسے  
21۔قاری عبد الخالق رحمانی  
22۔مرد خوش خصال- عبدالرحمٰن میمن رحمہ اللہ  
23۔مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ
24۔عالم ربّانی مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ  
25۔1942ء کا تاریخ ساز واقعہ اور مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ
26۔مولانا حکیم عبد العلیم ملکانی رحمہ اللہ
27۔مولوی محمد عمیرڈیپلائی  رحمہ اللہ
28۔مولانا گل محمد ریگستانی  
29علامہ سیّد محب اللہ شاہ راشدی ؒ کی یاد میں (تاثرات)  
30۔سیّد محب اللہ شاہ راشدی- ایک عہد ساز شخصیت  
31۔مولانا محمد خان لنڈ مرحوم کلوئی والے  
32۔مولانا محمود حسن تونیہ رحمہ اللہ
33۔مولوی نصیر الدّین ساھڑ رحمہ اللہ
34۔مولوی محمد ہاشم نھڑوی
ؒ35۔پروفیسرمحمد یامین محمدی
36۔ مولانا محمد یوسف زبیدی رحمہ اللہ
37۔برصغیر میں علم حدیث کا احیاء  
38۔ عقیدہ توحید اور علمائے اہل حدیث سند ھ کی خدمات  
39۔ محمد بن عبد اللہ الظاھری  
40۔ مفتی محمد ادریس سلفی رحمہ اللہ۔
حصہ دوم  (سندھی مضامین)
سندھی زبان میں شخصیات پر لکھے گئے مضامین اور ان پر لکھے گئے تبصرے۔
سندھی اہل زبان سے بڑی معزرت کے ساتھ سندھی رسم الخط پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے درج ذیل نام اردو میں لکھے جا رہے ہیںامید ہے سندھی زبان کے اہل علم حضرات ہمارے عذر کو قبول فرما لیں گے۔
1۔ مھاگ: پروفیسر محمد جمن کنبھر
2۔ بہ اکر: مولانا محمد خان محمدی ملکانی  
3۔مولانا ابو سالک سندھی     4۔حاجی ابو طالب میمن  
5۔علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی  
6۔مولانا حاجی احمد ملّاح بدین  7۔ مولانا محمد اسحاق جونیجو  
8۔مولانا محمد اکرم علی انصاری ھالائی  
9۔حاجی اللہ جڑیو ارباب      10۔مرحوم امیر حسن ارباب  
11۔علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی  
12۔حاجی تاج محمد ارباب  13 مولانا جان محمد نہڑیو  
14۔حافظ حاجی جام علیانی  15۔مولانا حبیب اللہ چوہان  
16۔ علامہ محمد حیات سندھی  17۔ استاد محمد حیات بجیر  
18۔مولانا محمد حیات لاشاری  
19۔ مرحوم خان صاحب ارباب توگاجی  
20۔مولانا خیر محمد زمانی  
21 ۔سید رشد اللہ شاہ راشدی (اوّل)  
22۔سید روح اللہ بن محب اللہ شاہ راشدی  
23۔ سید روح اللہ بن یاسین شاہ راشدی  
24۔مولانا محمد سلیمان کھٹی نئون کوٹ  
25۔مولانا شہاب الدین نہڑیو  
26۔ حاجی صاحب ڈنو میمن  
27۔حاجی محمد صدیق دل  
28۔ حاجی عبد اللہ ارباب  
29۔قاضی عبد الحق انصاری ھالا  
30۔ ڈاکٹر عبد الرزاق ارباب  
31۔مولانا عبد الرحمان مٹیاری  
32۔ مولانا عبد الرحمان ھوتی  
33۔مولانا عبد الرحیم پچھمی  
34 ۔مولانا عبد الرحیم پچھمی  
35۔ پروفیسر عبد المجید ساھڑ (حر)  
36۔ مولانا عزیز اللہ ساند  
37۔ مرحوم علی بخش ڈورتھ  
38۔مولانا علی محمد جونیجو  
39۔ حاجی علی محمد مٹھوانی  
40۔مولانا محمد عمر جونیجو ڈیپلو  
41۔ مرحوم غلام محمدجنہنجی
42۔ حاجی فیض محمد ارباب  
43۔حاجی قاضی اللہ جڑیو ارباب  
44۔مرحوم قاضی محمد ابراہیم تھیبور سعید پور  
45۔ مرحوم مجیب الرحمان نہڑیو  (پروفیسر محمد جمن کنبھر)  
46۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی  
47۔مرحوم محمد محسن ھنگورجو     48۔مرحوم محمد حسین مورو  
49۔ علامہ سید محمد شاہ راشدی  
50۔مولانا محمد علی جونیجوعالم بھلی  
51۔ پروفیسر محمد عمر میمن      52۔ استاد محمد مراد جونیجو  
53۔ مرحوم ارباب مراد علی ایڈوکیٹ  
54۔مرحوم امان مریم میمن ڈیپلو  
55۔مرحوم مشتاق احمد مٹھوانی ڈیپلو  
56۔ مرحوم معمور یوسفانی     57۔مرحوم منٹھار ارباب  
58 ۔ مرحوم منصور ویراگی    59۔ مرحوم محمد موسیٰ نہڑی  
60۔ حاجی میر محمد ارباب  61۔ پروفیسر محمد وارث سنگراسی  
62۔ حاجی گل محمد کورم  
63۔ مولانا محمد ہاشم نہڑی سدوئی  
64۔ مرحوم محمد یونس ساہڑ۔
آپ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی تحریر ہو بڑی مغزماری محنت اور جانکاری سے معرض و جود میں آنے کے بعد تنقید و تحسین کے مرحلے میں داخل ہوجاتی ہےبعض لوگ قلمی اور بعض کلامی انداز سے تنقیدی قینچیاں چلاتے اور بعض لوگ تحریر کو تنقید کی قینچیوں سے تہذیب کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں یعنی تنقید دو طرح کی ہوتی ہےیا تحریر کا مُثلہ کر دیتی ہے یا تنقید تحریر کو حسن کے زیور سے بنا سنوار دیتی ہے۔ اور بعض لوگ لکھنے والے کی تحریر کو تحسین کا جامہ پہنا کر مؤلف یا مصنف کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ مصنف کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور مصنف کی تحریر کو اپنے تئیں مناسب تنقید کے مرحلے سے گزارا جائے تاکہ مؤلف کو اپنی تحریر کے دونوں رُخ ہی دیکھنے کا موقعہ مل سکے۔
 میں یہ کہا کرتا ہوں کہ کسی کی شخصیت کے بارے میں لکھنا اپنے آپ کو مسندِ عدل پر بٹھانے کے مترادف ہوتا ہے، شخصیت کے سکّے کے دونوں (تاریک اور روشن) رخ دکھانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ بلا شبہ یہ مشکل ترین کاموں میں سے ہے اس لیے جو لوگ شخصیات پر لکھتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ شخصیت کے دونوں پہلو دکھا نے میں بڑے حزم و احتیاط سے کام لیں۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ شخصیت پر لکھنے کے لیے اکثر و بیشتر ہم اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں حالانکہ زندہ شخص اپنے بارے میں مستند اور وسیع معلومات فراہم کر سکتا ہے۔
پیش نظر کام بہت وقیع ہے اس کتاب کے اندر بعض ایسی شخصیات آگئی ہیں جو اپنے عہد کی تاریخ ساز شخصیات تھیں۔ محمدی صاحب کے وسیلے سے ان شخصیات سے متعارف ہونا ہمارے لیے اعزاز و افتخار کی بات ہے مثلاً حاجی احمد ملّاح رحمہ اللہ، مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ، راشدی خاندان کے علماء اور ان کے ضمن میں بہت ساری دوسری شخصیات کا بھی تعارف حاصل ہوگیا۔
قاری کے ذہن کو ہلکاپھلکا رکھنے کےلیے پروفیسر صاحب نے جا بجا اردو، عربی، فارسی اور سندھی اشعار کا اہتمام کیا ہے۔میں یہ سمجھتاہوں کہ جس طرح بچہ جنم سے پہلے ماں کا خون چوستا ہے اسی طرح تحریر بھی مصنف کا خون چوستی ہے آپ نے کئی لوگ ایسے دیکھے ہوںگے جو ضخیم اور کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں کے مصنف ہوتے ہیں مگر خود دبلے پتلے ضعیف اور نحیف ہوتے ہیں۔ خون دینے سے تحریر میں جان آجاتی اور دم آجاتا ہے اور عربی زبان میں ‘”دم“ خون کو کہتے ہیں۔
واقعۃً تحریر میں اگر دم ہوگا تو لکھنے والوں کو دعائیں اور مبارک بادیں ملتیںکبھی تحفے ملتے اورکبھی پیسے بھی ملتے ہیں۔مگر کبھی کبھی اس کے بر عکس کوسنے اور کبھی مغلظات بھی ملتے ہیں۔ تاہم مولا بخش صاحب کا کہنا ہے کہ میں اس کتاب کے چھپنے سے پہلے اور بعد کے مراحل میں صعوبتوں کا شکار ہو گیا۔
مجھے اپنی ہی کتاب خریدنی پڑی اور کئی ہزار کی لاگت سے میں نے یہ کتاب خرید کر دوستوں میں بلا قیمت تقسیم کی اور اپنے ہی بعض احباب سے سرد گرم باتیں سننے کا تجربہ اور بعض بدذوق اہل علم سے تعارف حاصل ہوا۔

خیر! تصنیف و تالیف کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد بعض اوقات ایسے ایسے معاملات بھی پیش آجاتے ہیں جن کی انسان کو امید نہیں ہوتی یا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
مگر میرا یہ حسن ظن ہے کہ مصنف کو یہ کتاب نہ صرف سندھ سے باہر متعارف کرائے گی بلکہ بیرون ملک سے بھی دادِ تحسین دلوائے گی باوجود اس بات کے کہ اس کتاب میں پروف ریڈنگ کی اغلاط موجود ہیں مثلاً صفحہ 7 پر علاقے کو علائقے صفحہ 141 پر کھوکھر کو کوکھر، صفحہ 153 پرشعر درج ہے اور بلا وجہ حاشیے ؎ کا نشان موجود ہے۔ صفحہ 105 پر ایک پیراگراف کو تین بار لکھا گیا ہے۔کتاب کے ٹائٹل اور اندرون ٹائٹل پر لکھا ہے۔
1۔ بحر العلوم ٹرسٹ میر پور خاص سندھ ،  2۔ مکتبہ بیت السلام ،  دونوں میں سے کسی کے شروع میں ناشر نہیں لکھا۔مگر ایک علیحدہ جگہ پر لکھا ہے ”جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں“اسی طرح کتاب کی فہرست میں ”مشاہیر سندھ“ سے ہٹ کر بھی بعض اہلِ علم شخصیات کا ذکر آگیا ہے۔ اسی طرح فہرست کو جب آپ غور سے پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ بعض عنوان ہو بہو ایک ہی جیسے ہیں اسی طرح راشدی خاندان کے علماء کو ایک ہی ترتیب میں ذکر کرنے کی بجائے جا بجا وقفے وقفے سے تین مختلف جگہوں پر ذکر کر دیا گیا ہے۔ لگتا ہے فہرست الجھن یا عجلت میں تیار کی گئی ہے۔
اس کتاب میں سندھ کے ان مشاہیر کا بھی ذکر کرنا چاہیئے تھا جو پیدا تو سندھ میں ہوئیں مگراہل عرب کو ان کے ممالک میں فیض پہنچایا جس طرح مصنف نے بعض ان شخصیات کا تذکرہ کیا جو پیدا تو ہندوستان میں ہوئیں مگر وفات سندھ میں پائی جیسا کہ قاری عبد الخالق رحمانی  کا تذکرہ فرمایا۔فہرست سازی میں بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے، ان سب کچھ کے باوجود اردو اور سندھی زبان کے اہل علم کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے بالخصوص جو شخصیات کے حوالے سے معلومات میں اضافےکے خواہاں، سندھ میں اہلحدیث کی مشکلات سے متعارف ہونااور سندھ میں تاریخ اہل حدیث جاننا چاہتےہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے